کمپنیوں، اداروں کی جانب سے اوور ٹائمنگ پر مجبور کیئے رکھنا ملازمین کی زندگیاں نگل رہا ہے: عالمی ادارہ صحت

کمپنیوں، اداروں کی جانب سے اوور ٹائمنگ پر مجبور کیئے رکھنا ملازمین کی زندگیاں نگل رہا ہے: عالمی ادارہ صحت
عالمی ادارہ صحت اور محنت کشوں کی عالمی تنظیم کی ایک مشترکہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ روزانہ 9 گھنٹے یعنی ہفتے میں 55 گھنٹے یا زیادہ دورانیے کی ملازمت سے دل کے دورے یا فالج کے باعث موت کا خطرہ بھی بہت بڑھ جاتا ہے۔

یہ اوقاتِ ملازمت اور صحت میں باہمی تعلق پر اپنی نوعیت کا سب سے بڑا عالمی تحقیقی مطالعہ ہے جس کے نتائج تحقیقی مجلے ’’اینوائرونمٹ انٹرنیشنل شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی پریس ریلیر میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ تحقیق میں دو منظم ریویوز اور میٹا تجزیوں سے استفادہ کیا گیا جبکہ امراضِ قلب سے متعلق 37 اور فالج کے بارے میں 22 جامع مطالعات سے حاصل شدہ اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا۔

معاملے پر تحقیق کی تفصیلات 

مجموعی طور پر اِن 59 مطالعات میں 16 لاکھ سے زائد افراد شریک تھے۔ اس تحقیق کےلیے 1970 سے 2018 کے دوران 154 ممالک میں کیے گئے 2300 سے زائد سرویز کا احاطہ کیا گیا ہے جو عالمی، علاقائی اور قومی سطح کے تھے۔ تجزیئے سے معلوم ہوا ہے کہ 2016 میں فالج سے 3 لاکھ 98 ہزار اموات جبکہ امراضِ قلب سے 3 لاکھ 47 ہزار اموات کی وجہ ملازمت کے طویل اوقات تھے۔سال 2000 کے مقابلے میں فالج سے اموات کی یہ شرح 19 فیصد زیادہ، جبکہ امراضِ قلب سے اموات کی شرح 42 فیصد زیادہ تھی جو بلاشبہ تشویشناک ہے۔ یہی نہیں بلکہ مردوں میں 72 فیصد اموات کا سبب کام کا مسلسل دباؤ اور زیادہ اوقات تھے جبکہ مرنے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق مغربی بحرالکاہل اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاقوں سے دیکھا گیا۔ اوقاتِ ملازمت میں زیادتی کے باعث مرنے والوں کی عمریں 60 سے 79 سال کے درمیان تھیں جبکہ انہوں نے 45 سے 74 سال کی عمر کے درمیان ہفتے میں 55 گھنٹے یا زیادہ دیر تک کام کیا تھا۔ اس تحقیق کی روشنی میں عالمی ادارہ صحت نے تجویز کیا ہے کہ ملازمین پر کام کا دباؤ کم کرتے ہوئے ملازمت کے اوقات کم کیے جائیں اور اداروں میں ملازمین کو اوور ٹائم کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔

پاکستان میں مزدوروں  کے اوقات  کار کی  صورتحال کا مختصر جائزہ

بی بی سی کے مطابق جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں ملک کے لیبر قوانین میں ایسی کئی ترامیم کی گئی ہیں جن کے بارے میں مزدور تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کے ذریعے محنت کش طبقے کے حقوق پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔مشرف دور میں کئی سرکاری محکموں میں یونین سازی پر پابندی عائد کی گئی یا ان کی سرگرمیاں محدود کر دی گئی ہیں۔ فیکٹری کلوزڈ ڈے قانون میں ترمیم کی گئی جس کے تحت اب ہفتے میں ایک روز کارخانہ بند کرنا ضروری نہیں رہا۔

محنت کے روزانہ اوقات کار آٹھ سے بارہ گھنٹے کر دیئے گئے ہیں جبکہ کانٹریکٹ نظام کی ایک ایسی شق صنعتی قانون میں شامل کی گئی جس کے بعد مالکان کو کانٹریکٹ پر بھرتیاں کرنے کا اختیار دیاگیا اور مزدور مستقل ملازمتوں سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔ ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین کے چیئرمین چودھری منظور کہتے ہیں کہ مشرف حکومت میں ملازمتوں سے برطرفی کا آرڈیننس نافذ کیا گیا جس کے تحت اب کسی بھی سرکاری ملازم کو وجہ بتائے بغیر نکالا جاسکتا ہے۔ اسی حوالے سے سنہ دو ہزار دو میں انڈسٹریل ڈسپیوٹ ریزولوشن آرڈیننس (آئی آر او) متعارف کرایا گیا جس کے تحت سے ٹریڈ یونین کے نقطہ نظر پر ہی پابندی عائد کردی گئی۔

صورتحال صرف آخری طبقے کے مزدوروں تک محدود نہیں:

پاکستان میں یہ صورتحال صرف فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور درجہ چہارم میں آنے والے ورکرز تک محدود نہیں بلکہ اب تو یہ بڑے اداروں میں بڑے عہدوں پر کام کرنے والے ملازمین بھی اس کا شکار ہیں۔ ایک کال سینٹر میں کام کرنے والے اور درجہ چہارم میں آنے والے ورکرز تک محدود نہیں بلکہ اب تو یہ بڑے اداروں میں بڑے عہدوں پر کام کرنے والے ملازمین بھی اس کا شکار ہیں۔ لاہور کے علاقہ ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب واقع  ایک کال سینٹر میں کام کرنے والی 30  سالہ ایجنٹ بشریٰ یونس( حقیقی نام حذف کیا جا رہا ہے)  نے نیا دور  سے بات  کرتے ہوئے  بتایا کہ وہ جس کال سینٹر میں کام کرتی ہیں وہ نارتھ امریکہ کو ڈیل کرتا ہے۔ گزشتہ تین سالوں سے جو تنخواہ انہیں دی جا رہی ہے اس میں اضافہ تو کجا مختلف  بہانوں سے اس میں کٹوتی کر دی جاتی ہے۔ دوسری جانب انکی شفٹ اوسطاً  10  گھنٹے تک جا پہنچتی ہے۔ اس صورتحال پر جب بات کی جاتی ہے تو مینجر لیول پر ہی نوکری کے خاتمے کا آپشن دیا جاتا ہے۔  یہ ایک خوف کا ماحول ہے۔ جہاں  بد ترین استحصال کے باوجود نوکری کے بچ جانے کی کوئی گارنٹی نہیں۔

اسجد عارف ملک کے بڑے  ٹی وی چینل میں کام کرتے ہیں۔ یہ ایک رپورٹر ہیں۔  وہ کہتے ہیں کہ  انکی تنخواہ یومیہ ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس چینل میں 5 سال ہو چکے ہیں۔ اس دوران تنخواہ میں ایک روپیہ بھی اضافہ نہیں ہوا۔ جبکہ چینل میں مسلسل ڈاؤن سائزنگ کی وجہ سے 80 فیصد سٹاف کم ہو چکا ہے۔ اسجد نے کہا کہ  آپ اندازہ لگائیں کہ ہمارے لوکل چینل  میں  65 کے قریب رپورٹرز تھے  اب صرف 18 ہیں۔ جبکہ کام ہم سے اتنا ہی لیا جاتا ہے۔  8 گھنٹے کی شفٹ تو اب ایک نو گو ایریا بن چکا ہے۔  استحصال ہر سطح پر ہو رہا ہے۔

پاکستان میں سکڑتی ہوئی معیشت اور   اوور ٹائمنگ کا اژدھا

پاکستا ن کی معیشت اس وقت ابتر صورتحال میں ہے۔ مالی سال میں معیشت کی شرح نمو  2.5  تک رہنے کے سرکاری اندازے دیئے گئے ہیں۔  تاہم اب تک بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جس کے بعد  سے مارکیٹ میں ملازمت کے لیئے تگ و دو کرنے والے افراد کی کثرت ہوچکی ہے جبکہ نوکریاں غائب ہوچکی ہیں۔ اور یہ صورتحال آجر کو استحصالی پالیساں رکھنے میں آسانی پیدا کردیتی ہیں۔