ماں کو معمولی تنازعے پر قتل کرکے لاش کھانے والے نوجوان کو 15 سال قید کی سزا

ماں کو معمولی تنازعے پر قتل کرکے لاش کھانے والے نوجوان کو 15 سال قید کی سزا
دنیا بھر میں کبھی کبھار ایسے نفسیاتی اعوارض میں مبتلا انسان اور انکی حرکتیں سامنے آتی ہیں کہ جن سے انسان کو نفرت اور خوف محسوس ہوتا ہے۔ ایسا ہی واقعہ سپین میں پیش آیا ہے۔
جہاں کی عدالت نے ماں کو قتل کرکے باقیات کھانے والے نوجوان کو 15 سال قید کی سزا سنادی۔ برطانوی میڈیا کےمطابق 28 سالہ البرٹو گومیز کو پولیس نے 2019 میں اس وقت گرفتار کیا جب اس کی ماں کے گھر سے پلاسٹک کے ڈبوں میں کچھ انسانی باقیات ملیں۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہےکہ فروری 2019 میں البرٹو کے ایک دوست نے اس کی 60 سالہ والدہ کے مالی معاملات سے متعلق پولیس کو اطلاع دی تھی جس کے بعد پولیس نے خاتون کے کا گھر جائزہ لیا تھا اور گھر سے خاتون کی باقیات پائی گئیں۔

برطانوی میڈیا کا بتانا ہےکہ دورانِ ٹرائل یہ بات ثابت ہوئی کہ 2019 میں 26 سالہ البرٹو نے ایک تنازع پر اپنی ماں کا گلہ دبا کر انہیں قتل کیا جس کے بعد اس نے خاتون کی لاش کے ٹکڑے کردیے اور جسم کے کچھ حصوں کو نہ صرف خود کھایا بلکہ کچھ اپنے کتے کو کھلانے کے لیے بھی رکھ لیے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق البرٹو پر جرم ثابت ہونے پر عدالت نے اسے 15 سال قید کی سزا سنائی جب کہ عدالت نے البرٹو کو اپنے بھائی کو مالی امداد کے طور پر 73 ہزار امریکی ڈالر کی ادائیگی کے بھی احکامات دیے۔

پاکستان میں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں
8 سال قبل پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع بھکر کے گنجان آباد حصے میں دو آدم خور بھائی سامنے آئے تھے۔ جنہوں نےاپنے اہلخانہ سمیت دیگر افراد کی میتیں قبروں سے نکال کر پکا کر کھاتے تھے۔
اہل علاقہ کی نشاندہی پر جب پولیس نے انکے گھر پر چھاپہ مارا تو انکے گھر سے پکے ہوئے انسانی اعضا پتیلیوں میں پڑے ملے تھے۔ دونوں بھائیوں نے اعترافی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تازہ قبر کو کھود کر مردے کو نکالتے تھے اور اسکے اعضا کاٹ کر اسکے پکا کر کھاتے تھے۔
یاد رہے کہ بھکر کے ان مردار خور بھائیوں نے بچوں کی میتوں کو بھی پکا کر کھانے کا اعتراف کیا تھا۔
بھکر کے ان مردہ خور بھائیوں کو کیا سزا ملی؟
ان ملزمان کا جب ٹرائل شروع ہوا تو انکشاف ہوا کہ ملکی قانون میں اس قسم کے کسی بھی مکروہ فعل کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔ جس کے بعد ان کا انسداد دہشت گردی عدالت میں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ٹرائل ہوا جس میں سات سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد وہ واپس آئے تاہم انکی ذیلی سزاوں کی تکمیل کے لیئے انہیں پھر سے دھر لیا گیا۔