کیا عثمان کاکڑ کی قبر پر افغانستان کا جھنڈا لگایا گیا تھا؟

کیا عثمان کاکڑ کی قبر پر افغانستان کا جھنڈا لگایا گیا تھا؟
پختونخوا ملی عوامی  پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کراچی میں انتقال کے بعد اپنے گاؤں کوئٹہ مسلم باغ میں سپردخاک کئے گئے ۔ کراچی سے براستہ سڑک اُن کی لاش کو ان کے آبائی علاقے منتقل کیا گیا جہاں ہزاروں لوگوں نے اُن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے سڑکوں کا رُخ کیا اور ان پر پھول نچھاور کئے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ اگر ایک طرف سینیٹ میں حساس موضوعات پر سخت موقف اپناتے تھے تو دوسری جانب اپنے لوگوں کے ساتھ ہر مشکل گھڑی میں کھڑے ہوتے تھے۔ اُن کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی جبکہ خاندان سمیت پارٹی چئیرمین محمود خان اچکزئی نے بھی دعویٰ کیا کہ عثمان کاکڑ کی موت طبعی نہیں تھی اور ان پر حملہ کیا گیا ہے۔

محمود خان اچکزئی نے موقف اپنایا کہ خفیہ ایجنسیوں کے علاوہ جو بھی ثبوت مانگنے آئے گا ان کو ثبوت فراہم کئے جائینگے اور جلد ہی پشتون قوم پرست جماعتوں کا جرگہ بھی بلایا جائے گا۔ دوسری جانب بلوچستان حکومت نے سینیٹر عثمان کاکڑ کے خاندان اور پارٹی کی جانب سے اُٹھائے گئے تحفظات پر ردعمل دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بلوچستان حکومت ہر قسم کے تحقیقات کے لئے تیار ہے۔

عثمان کاکڑ کی تدفین کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کررہی ہے کہ  مرحوم سینیٹر عثمان کاکڑ کے قبر پر پڑوسی ملک افغانستان کا جھنڈا لگایا گیا ہے جس پر لوگ تنقید کررہے ہیں۔نیا دور میڈیا نےاس معاملے کی سچائی جاننے کے لئے اس واقع کی تحقیقات کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق جو ویڈیو منظر عام پر آئی ہے اس میں ویڈیو بنانے والا شخص کہہ رہا ہے کہ ملی  شہید عثمان کاکڑ کے قبر پر افغانستان کا جھنڈا لہرایا گیا ہے۔ نیا دور میڈیا نے اس حوالے سے بلوچستان کے مقامی لوگوں اور صحافیوں سے بات کی جس پر انھوں نے موقف اپنایا کہ عثمان کاکڑ کے انتقال ہونے کے بعد ہی قبر کھود دی گئی تھی اور یہ ویڈیو جس وقت منظر عام پر آئی اس وقت عثمان کاکڑ کی لاش کراچی سے روانہ نہیں ہوئی تھی اور مقامی لوگوں کی جانب سے یہ جھنڈا لگایا گیا جس کو بعد میں پارٹی راہنماؤں نے ہٹا دیا تھا۔

نیا دور میڈیا نے کئی ایسی ویڈیوز اور تصویروں کا مشاہدہ کیا جس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ سینیٹر عثمان کاکڑ کے تابوت اور قبر پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے جھنڈے تھے۔ ایک ویڈیو جس میں مرحوم کے تابوت کو قبر میں اُتارا جارہا ہے کو بھی پارٹی پرچم میں لپیٹ دیا گیا ۔ دوسری جانب قبر کی ایسی کئی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں جس میں اُن کے قبر پر پارٹی پرچم  لگایا گیا ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ہمیں بھی ایسی ویڈیو ز اور تصاویر ملی تھیں جس میں عثمان کاکڑ کے قبر پر افغانستان کا جھنڈا لگایا ہوا دیکھا جاسکتا ہے مگر جب ہم نے لوگوں سے پوچھا اورقبر پر گئے تو یہ معلوم ہوا کہ اُن کے قبر کشائی کے موقع پر کچھ نوجوانوں نے افغانستان کے جھنڈا لگایا تھا جس کو بعد ازاں پارٹی رہنماؤں نے ہٹا کر پارٹی کا جھنڈالگا دیا ۔ انھوں نے کہا کہ ویڈیو میں اس شخص کی باتوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ شاید عثمان کاکڑ کی تدفین کے بعد یہ جھنڈا لگا دیا گیا ہے اور لوگوں نے اس پر یقین بھی کرلیا لیکن ہمارے تحقیقات سے معلوم ہوا کہ جھنڈا قبر کشائی کے وقت کچھ لمحوں کے لئے لگایا گیا تھا۔

صحافی کے مطابق ویڈیو جس نے بھی بنائی تھی انہوں نے ویڈیو تدفین کے بعد سوشل میڈیا اور گروپوں میں ڈال دی جس کے بعد اس معاملے کو اُچھالا گیا۔ ان کا نے مزید کہنا تھا کہ قوم پرست سیاست اور عثمان کاکڑ کے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں نے اس ویڈیو کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا تاکہ عثمان کاکڑ کے جنازے میں پیدا ہونے والے جمہوری یگانگت ، بلوچ ،پختون اتحاد اور خاندان اور پارٹی کی جانب سے اُٹھائے گئے تحفظات سے منہ موڑا جائے ۔

بلوچستان میں رہائش پزیر صحافی شہباز کاکڑ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ عثمان خان کاکڑ کے جسد خاکی کو نہ صرف پختونخوا  ملی عوامی پارٹی کے پرچم میں لپیٹا گیا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اُن کے قبر پر بھی پارٹی کا جھنڈا لگا دیا گیا تھا۔ جعفر خان نے اس بات کی تصدیق کی کہ جنازے سے دو دن قبل قبر کشائی کے بعد افغانستان کا جھنڈا کچھ وقت کے لئے لگا یا گیا تھا مگر بعد میں پارٹی کا جھنڈا قبر پر  لگا دیا گیا جس کے واضح ثبوت  موجود ہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔