خوشاب: توہین کا الزام لگا کر بینک مینجر کو قتل کرنے والے گارڈ کو دو بار موت کی سزا سنا دی گئی

خوشاب: توہین کا الزام لگا کر بینک مینجر کو قتل کرنے والے گارڈ کو دو بار موت کی سزا سنا دی گئی
خوشاب میں توہین مذہب کا غلط الزام لگا کر بینک مینجر کو قتل کرنے والے گارڈ کو 2 بار سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سرگودھا کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج نے گزشتہ سال 2020 نومبر میں خوشاب کے علاقے قائد آباد میں بینک میجنر کو توہین مذہب کا غلط الزام لگا کر قتل کرنے والے گارڈ حمد نواز کو سزائے موت کی سزا سنا دی، جب کہ مجرم کو 12 سال قید اور 11 لاکھ 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔
عدالت کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ گارڈ نے ذاتی رنجش پر بینک منيجر کو قتل کيا۔ گارڈ کی جانب سے لگایا گیا توہين مذہب کا الزام ثابت نہيں ہوا ہے۔

 اس کیس میں پولیس کا موقف کیا رہا؟

ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب سہیل سکھیرا کے مطابق ملزم گارڈ کے خلاف ابتدائی طور پر اقدامِ قتل کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کر دی گئیں۔ ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم نے بینک مینیجر پر توہین رسالت کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اس اس نے توہین مذہب پر قتل کرنے کی غرض سے مقتول پر گولیاں چلائیں۔

یہ ملزم کا ذاتی بیان تھا، جس کے گواہان موجود نہ تھے۔ تاہم بینک میں لگے سی سی ٹٰ وی فوٹیج پولیس نے حاصل کرلی تھی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مجرم گارڈ نے کیسے اچانک صبح کے اوقات میں بینک مینجر پر فائرنگ کی۔

ایف آئی آر میں کیا کہا گیا تھا؟

دوسری جانب مقتول کے اہل خانہ نے مقدمہ درج کرواتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کے بھائی گزشتہ ایک سال سے اس بینک میں فرائض انجام دے رہے تھے۔ اور اکثر ان کو گھر کی گاڑی کے ذریعے بینک چھوڑا جاتا تھا، گھر والے ملزم احمد نواز کو اس لیے پہلے سے جانتے تھے۔ایف آئی آر میں مقتول کے بھائی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے واقعے والے دن اپنے مقتول بھائی کو بینک کے باہر اتارا اور تھوڑی دیر میں فائرنگ کی آواز آئی۔ جس پر میں اترا تو اس وقت دیکھا مجرم گارڈ احمد نواز میرے مقتول بھائی پر براہ راست فائرنگ کر رہا تھا۔
درج مقدمے میں کہا گیا تھا کہ واقعے کی وجہ عناد سیکیورٹی گارڈ کی جانب سے ڈیوٹی پر تاخیر سے آنے پر مقتول کی جانب سے ڈانٹ ڈپٹ تھی۔
واقعہ کی سی سی ٹی وی
واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا تھا کہ مقتول بینک مینجر حنیف اپنی جگہ بیٹھا کام میں مصروف ہے۔ اس دوران حملہ آور احمد نواز اس کے پاس آتا ہے اور سامنے کسٹمرز کیلئے مختص بینچ پر بیٹھتا ہے۔ ایک اور گارڈ حنیف کی میز کے ساتھ آکر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر اچانک نواز اٹھ کھڑا ہوا اور بینک مینجر حنیف پر فائر کھول دیا۔ دوسرا گارڈ نواز پر قابو پانے کیلئے آگے بڑھا مگر تب تک وہ 3 گولیاں چلا چکا تھا۔

قتل کے واقعے کے بعد اسے توہین کا رنگ کیسے دیا گیا؟

نیا دور نے اس واردات کے وقت ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کیسے یہ کیس ایک دفتر عناد کا کیس تھا اور اسے مسلکی عناد کی تسکین کے ساتھ ہی توہین کا رنگ دیا گیا
رپورٹ کے مطابق اس شخص کا کہنا ہے کہ مقتول کا ماننا تھا کہ نبی انسانوں کو کچھ نہیں دے سکتے، ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ وہ مزید کہتا ہے کہ بینک مینیجر جس کو اس نے قتل کیا، یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ نماز میں صرف فرض پڑھنے چاہئیں، نوافل اور سنتوں کی ضرورت نہیں۔ قاتل اسی بینک میں سکیورٹی گارڈ تھا اور اس نے بینک مینیجر کو ان خیالات کی بنیاد پر توہین کا الزام لگا کر قتل کر دیا۔

مقتول کا تعلق غالباً اہلحدیث مکتبہ فکر سے تھا
یہاں قاتل خود جو بیان اس ویڈیو میں دے رہا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ جس شخص کو قتل کیا گیا، اس کی نیت گستاخی کی نہیں، بلکہ وہ اسلام کے ایک بڑے سنّی مسلک یعنی اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ اہلحدیث مکتبہ فکر کے مطابق انبیا علیہم السلام بشمول نبی اکرمؐ کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے کچھ نہیں رکھا، وہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں۔ جب کہ بریلوی مکتبہ فکر کے مطابق انبیا علیہم السلام کو خدا نے اختیار دے رکھا ہے لیکن وہ اسے مشیت الٰہی کے مطابق ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس معاملے میں مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ دونوں اطراف سے یہ ایک مسلکی بحث ہے جس پر اختلاف اکثر و بیشتر احادیث اور قرآن کی روشنی میں کیا جاتا رہتا ہے اور دونوں ہی مسالک اپنی اپنی طرف سے انہی ماخذوں سے اپنے اپنے مطلب کی بات پر یقین رکھتے ہیں۔ صحیح اور غلط کا فیصلہ تو خدا ہی کی ذات کر سکتی ہے۔

اسی طرح اہلحدیث مکتبہ فکر جو کہ سلفی مکتبہ فکر سے بہت قریب سمجھا جاتا ہے، کے مطابق نماز میں بھی نوافل اور سنتیں اضافی ہیں، اصل نماز محض فرض نماز ہی ہے۔ یہ مسئلہ بھی بریلوی اور اہلحدیث مکتبہ فکر کے درمیان صدیوں سے موضوعِ بحث رہا ہے۔

کیا دفتری معاملے کو توہین کا رنگ دیا جارہا ہے؟

جو کچھ اس واقعے میں ہوا ہے، اس کے حقائق تو پولیس ہی سامنے لے کر آئے گی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ معاملہ گارڈ کو دیر سے آنے پر مینیجر کے ڈانٹنے سے شروع ہوا۔ مینیجر کی جانب سے سختی سے پیش آنے پر دونوں میں بحث ہوئی اور اس گارڈ نے مینیجر کو موقع پر ہی گولی چلا کر ہلاک کر دیا۔ بعد ازاں اس معاملے میں خود کو بچانے کی خاطر اس نے اسے توہینِ مذہب کا رنگ دے دیا۔ ایسا بالکل ممکن ہے اور یہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ بھی نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے فیصل آباد میں ایک مسیحی شخص پر زمین کے جھگڑے میں توہین کا الزام مبینہ طور پر ایسے ہی لگایا گیا تھا۔ جوزف کالونی اور گوجرہ کے واقعات میں بھی علاقے کی سیاسی صورتحال کا گہرا عمل دخل تھا۔

مسلکی بنیادوں پر قتل کر کے توہین کا الزام لگانا بھی نیا نہیں۔ اس سے پہلے بہت سے اہل تشیع اور احمدی افراد پر ایسے الزامات لگائے جا چکے ہیں۔