کیا جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا عہدہ چین کی ناراضگی کی نذر ہوگیا؟

کیا جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا عہدہ چین کی ناراضگی کی نذر ہوگیا؟
پاکستانی حکومتی حلقوں میں اس وقت تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے۔ اور سی پیک کے رو رواں جنرل ر عاصم سلیم باجوہ  اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں اور انکی جگہ پر بطور مشیر وزیر اعظم سی پیک خالد منصور کی تعیناتی کردی گئی ہے۔
اس حوالے سے وزیر پلاننگ اسد عمر کی ٹویٹس سامنے آئیں جس میں انہوں نے نئے تعینات ہونے والے خالد منصور کو خوش آمدید کہا اور بتایا کہ انکا چینی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کا وسیع ترین تجربہ ہے جبکہ وہ سی پیک کے پراجیکٹس پر بھی کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ اسد عمر نے جنرل ر  عاصم سلیم باجوہ کی سی پیک کو سیکنڈ فیز کے دوران وسعت دینے سمیت سی پیک کے حوالے سے خدمات پر سراہتے ہوئے انکا شکریہ ادا کیا۔ جبکہ جنرل ر  عاصم سلیم نے انہیں عظیم قومی خدمت کا موقع ملنے پر خدا کا شکر ادا کیا ہے۔
عاصم سلیم باجوہ سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین اور فیکٹ  فوکس کا پینڈورا باکس
اس حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعئے سی پیک اتھارٹی بنائی جس کے سربراہ کے طور پر جنرل ر عاصم سلیم باجوہ کو تعینات کیا گیا جن کو معاون خصوصی برائے اطلاعات کا بھی چارج دیا گیا۔ تاہم صحافی احمد نورانی نے اپنی ایک رپورٹ میں باجوہ ایمپائر کا انکشاف کیا جس کے بعد انہوں نے معاون اطلاعات کے عہدے سے استعفی' دیا تھا جبکہ وہ تا حال سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین تھے۔ یاد رہے کہ سی پیک اتھارٹی کا آرڈیننس بھی اپنا قانونی وقت پورا کر چکا تھا اور انکی تعیناتی کے لیے حکومت کے پاس خاص قانونی جواز موجود نہیں تھا۔ صحافی احمد نوارانی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ کے 'خاندان کی کاروباری سلطنت کا پھیلاؤ اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی فوج میں اہم عہدوں پر ترقی، دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلیں۔'اپنی رپورٹ میں احمد نورانی نے عاصم باجوہ کے بھائیوں، اہلیہ اور بچوں کی بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق دعوے کیے ہیں جن میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ یہ جائیدادیں چار ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔احمد نورانی نے ایک نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ 'عاصم سلیم باجوہ نے وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی بننے کے بعد جمع کروائی گئی اپنے اثاثہ جات کی فہرست میں اپنی بیوی کے پاکستان سے باہر بزنس کیپیٹل کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ متعلقہ کالم میں باقاعدہ 'نہیں ہے‘ لکھا ہے۔'
تاہم مضمون کی اشاعت کے بعد ٹوئٹر پر عاصم باجوہ نے دو ٹوک انداز میں الزامات کی تردید کرتے ہوئے لکھا کہ 'ایک غیر معروف ویب سائٹ پر میرے اور میرے خاندان کے خلاف عناد پر مبنی ایک کہانی شائع ہوئی ہے جس کی میں پرزور انداز میں تردید کرتا ہوں۔'

سی پیک منصوبے کی سیکیورٹی اور سست رفتار پر چین ناراض

چین اور پاکستان ویسے تو دیرینہ دوست سمجھے جاتے ہیں اور سی پیک کا منصوبہ بھی اسی تناظر میں پروان چڑھ رہا تھا ۔ تاہم 2018 کے بعد سے صورتحال میں تبدیلی آئی ہے۔ اور با خبر حلقوں کا کہنا ہے کہ چین پی ٹی آئی حکومت کی سی پیک ٹیم سے ناراض ہے۔ عاصم سلیم باجوہ کی چھٹی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے پس منظر کے حوالے سے معروف صحافی سلیم صافی کے ایک کالم کا یہ حصہ ملاحظہ ہو۔
صورت حال یہ ہے کہ چینی سی پیک کی جلدازجلد تکمیل کے لئے بے چین ہیں لیکن سونامی سرکار کے دور میں سی پیک پر کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی۔ مزید یہ مکہ تبدیلی سرکار کے دور میں چینیوں کی سیکورٹی کا مسئلہ بھی سنگین ہوگیا ہے ۔ پہلے کوئٹہ کے سیرینا ہوٹل میں خودکش دھماکہ ہوا اور اُس وقت چینی سفیر اسی شہر میں تھے ۔ اب داسو کا افسوسناک حادثہ ہوا لیکن تبدیلی سرکار کے نااہل وزیروں نے پہلے اس سے متعلق غلط بیانی کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ دہشت گردی نہیں بلکہ حادثہ ہے ۔
تبدیلی سرکار کی ان بچگانہ حرکتوں نے چینی دوستوں کو نہایت پریشان کررکھا ہے لیکن چونکہ چین کی سفارتکاری کا اپنا انداز ہے اور ہماری طرح ان کی زبانیں نہیں چلتیں ، اس لئے وہ سب برداشت کررہے ہیں تاہم اب وہ اس حد تک تنگ آگئے ہیں کہ مختلف اقدامات کے ذریعے اپنے مسیج دینے لگے ہیں ۔
مثلا رہائی کے بعد عمران خان نے میاں شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا لیکن اگلے دن چینی سفیر نے انہیں کھانے پر مدعو کرکے اس کی ویڈیو کوریج بھی کروائی جو عام روایت کے بالکل منافی تھا۔ لیکن افغانستان کے محاذ پر ہونے والی پیش رفت کے بعد اب ان حرکتوں کی مزید گنجائش نہیں۔پاکستانی حکومتی حلقوں میں اس وقت تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے۔ اور سی پیک کے روح رواں جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو اپنے عہدے سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ ان کی جگہ پر بطور مشیر وزیر اعظم برائے سی پیک خالد منصور کی تعیناتی کر دی گئی ہے۔
سب سے پہلے اس حوالے سے وزیر پلاننگ اسد عمر کی ٹویٹس سامنے آئیں جن میں انہوں نے نئے تعینات ہونے والے خالد منصور کو خوش آمدید کہا اور بتایا کہ ان کا چینی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کا وسیع ترین تجربہ ہے جب کہ وہ سی پیک کے پراجیکٹس پر بھی کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ اسد عمر نے عاصم باجوہ کی سی پیک کو سیکنڈ فیز کے دوران وسعت دینے سمیت سی پیک کے حوالے سے خدمات پر سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ عاصم سلیم نے انہیں عظیم قومی خدمت کا موقع ملنے پر خدا کا شکر ادا کیا ہے۔
عاصم سلیم باجوہ سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین اور فیکٹ فوکس کا پینڈورا باکس
اس حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سی پیک اتھارٹی بنائی جس کے سربراہ کے طور پر عاصم سلیم باجوہ کو تعینات کیا گیا جن کو معاون خصوصی برائے اطلاعات کا بھی چارج دیا گیا۔ تاہم، صحافی احمد نورانی نے اپنی ایک رپورٹ میں باجوہ ایمپائر کا انکشاف کیا جس کے بعد انہوں نے معاون اطلاعات کے عہدے سے استعفا دیا تھا جب کہ وہ تاحال سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین تھے۔ یاد رہے کہ سی پیک اتھارٹی کا آرڈیننس بھی اپنا قانونی وقت پورا کر چکا تھا اور ان کی تعیناتی کے لئے حکومت کے پاس خاص قانونی جواز موجود نہیں تھا۔ صحافی احمد نوارانی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ کے 'خاندان کی کاروباری سلطنت کا پھیلاؤ اور عاصم سلیم باجوہ کی فوج میں اہم عہدوں پر ترقی، دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلیں۔' اپنی رپورٹ میں احمد نورانی نے عاصم باجوہ کے بھائیوں، اہلیہ اور بچوں کی بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق دعوے کیے ہیں جن میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ یہ جائیدادیں چار ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ احمد نورانی نے ایک نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ 'عاصم سلیم باجوہ نے وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی بننے کے بعد جمع کروائی گئی اپنے اثاثہ جات کی فہرست میں اپنی بیوی کے پاکستان سے باہر بزنس کیپیٹل کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ متعلقہ کالم میں باقاعدہ 'نہیں ہے‘ لکھا ہے۔'
مضمون کی اشاعت کے چند روز بعد ٹوئٹر پر عاصم باجوہ نے دو ٹوک انداز میں الزامات کی تردید کرتے ہوئے لکھا کہ 'ایک غیر معروف ویب سائٹ پر میرے اور میرے خاندان کے خلاف عناد پر مبنی ایک کہانی شائع ہوئی ہے جس کی میں پرزور انداز میں تردید کرتا ہوں۔' ان کی تردید لیکن بہت سی تشنگی چھوڑ گئی کیونکہ انہوں نے ایک دستاویز ٹوئٹر پر شیئر کی جس میں خود ہی لکھا گیا تھا کہ ان کے خاندان کی بہت سی کمپنیاں نقصان میں ہیں اور کئی چل ہی نہیں رہیں۔ نہ صرف وزیر اعظم عمران خان نے ان کا یہ عذر قبول کر لیا بلکہ مزید کسی قسم کی کارروائی سے بھی یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر کسی کو اس تردید سے مسئلہ ہے تو وہ عدالت چلا جائے۔
سی پیک منصوبے کی سکیورٹی اور رفتار پر چین ناراض
چین اور پاکستان ویسے تو دیرینہ دوست سمجھے جاتے ہیں اور سی پیک کا منصوبہ بھی اسی تناظر میں پروان چڑھ رہا تھا۔ لیکن 2018 کے بعد سے صورتحال میں تبدیلی آئی ہے۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ چین پی ٹی آئی حکومت کی سی پیک ٹیم سے ناراض ہے۔ عاصم سلیم باجوہ کی چھٹی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے پس منظر کے حوالے سے معروف صحافی سلیم صافی کے ایک کالم کا یہ حصہ ملاحظہ ہو۔
صورت حال یہ ہے کہ چینی سی پیک کی جلدازجلد تکمیل کے لئے بے چین ہیں لیکن سونامی سرکار کے دور میں سی پیک پر کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی۔ مزید یہ کہ تبدیلی سرکار کے دور میں چینیوں کی سکیورٹی کا مسئلہ بھی سنگین ہو گیا ہے۔ پہلے کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں خودکش دھماکہ ہوا اور اُس وقت چینی سفیر اسی شہر میں تھے۔ اب داسو کا افسوسناک حادثہ ہوا لیکن تبدیلی سرکار کے نااہل وزیروں نے پہلے اس سے متعلق غلط بیانی کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ دہشت گردی نہیں بلکہ حادثہ ہے۔
تبدیلی سرکار کی ان بچگانہ حرکتوں نے چینی دوستوں کو نہایت پریشان کر رکھا ہے لیکن چونکہ چین کی سفارتکاری کا اپنا انداز ہے اور ہماری طرح ان کی زبانیں نہیں چلتیں، اس لئے وہ سب برداشت کر رہے ہیں۔ تاہم، اب وہ اس حد تک تنگ آ گئے ہیں کہ مختلف اقدامات کے ذریعے اپنے مسیج دینے لگے ہیں۔
مثلا رہائی کے بعد عمران خان نے میاں شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا لیکن اگلے دن چینی سفیر نے انہیں کھانے پر مدعو کر کے اس کی ویڈیو کوریج بھی کروائی جو عام روایت کے بالکل منافی تھا۔ لیکن افغانستان کے محاذ پر ہونے والی پیش رفت کے بعد اب ان حرکتوں کی مزید گنجائش نہیں۔
اس حوالے سے نیا دور کے ایگزیکٹو ایڈیٹر مرتضیٰ سولنگی نے بھی چند روز قبل ہی بتا دیا تھا کہ چین سی پیک اتھارٹی سے تو خوش ہے لیکن اس کے سربراہ کی نہیں ہے۔ سنیے ان کی چڑیا کی خبر کیا تھی:

نیا دور میڈیا کے ذرائع کے مطابق عاصم باجوہ حکمران جماعت میں بہت سے لوگوں کو پسند نہیں تھے۔ بطور معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات بھی ان کی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز سے کبھی نہیں بنی۔ سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر اسد عمر کے ساتھ بھی ان کی ایک ٹسل جاری تھی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ خالد منصور ایک اچھے پروفیشنل ہیں جو حب پاور میں بطور سی ای او بھی کام کر چکے ہیں، جو کہ سی پیک ہی کا ایک حصہ تھا۔ وہ چین کو بھی سمجھتے ہیں اور چینی کمپنیز کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔