کیچ تھیلسمیا سینٹر: 'جہاں ٹوٹے ہوئے خواب اور دردناک کہانیاں ملتی ہیں'

کیچ تھیلسمیا سینٹر: 'جہاں ٹوٹے ہوئے خواب اور دردناک کہانیاں ملتی ہیں'
اس دور میں انسان اپنے لیے نئے تقاضوں کے مطابق تخلیق اور ایجادات کے لیے کوششوں میں مصروف ہے اور اسے کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہے ۔ اسوقت ہمیں معاشرے میں صبرو تحمل اور انسانیت کے لیے شعور و آگاہی پیدا کرنا ہوگا تاکہ ہم ہر مجبور و لاچار اور ایک دوسرے کی دکھ درد اور تکلیف کو اپنا سمجھ کر اسکی مدد کرسکیں ۔ انفرادی طور پر ایسے بہت لوگ ہوں گے جو جذبہ خیر سگالی کے تحت عملی طور خاموشی سے کچھ کر رہے ہیں مگر انہیں شعوری طور پر کوئی اجتماعیت حاصل نہیں ہے۔ وہ باقیوں کے مقابلے میں گنتی کے چند لوگ ہیں ۔

اس راہ میں مکران بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حال ہی میں شعبہ سے ایم اے کرنے والے 28 سالہ ارشاد عارف جو ماسٹر کرنے کے بعد مقابلہ جاتی امتحانات کے تحت ایک اچھی ملازمت لیکر لگژری زندگی گزارنا چاہتے تھے لیکن یہ خواب تھا جو پورا نہ ہوسکا ۔ارشاد عارف بتاتے ہیں کہ جب ہم نے تھیلیسیما کے مریضوں کے لیے کام شروع کیا اور کیچ تربت تھیلیسیمیا کیئر سنٹر کی بنیاد رکھی تو ہم نے سوچا کہ اس ادارے کو چلانا سب سے بڑی نیکی اور انسانیت ہے اس کام میں سیکڑوں پریشان ماؤں کا سہارا بن سکتا ہوں۔ شاید میں کچھ سال تیاری کر کہ ایک سرکاری آفیسر بن سکوں مگر ان ماؤں کا سہارا کون بنے گا کہ جو روزانہ کی بنیاد پر اپنے پیاروں کی خاطر ہزاروں گھر دستک دیکر اپنے بیٹے ، بیٹیوں کے لیے ایک بوتل خون کی بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں اور جواب تک اس مرض کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے ہیں اُنکو یہ شعور و آگاہی کون فراہم کرے گا؟ اس موزی مرض میں مبتلا ہونے کے اسباب کیا ہیں؟

ارشاد کہتے ہیں کہ انسانیت کی خدمت کی خاطر ہم نے دسمبر 2019 کو کیچ تھیلیسیمیا کیئر سنٹر کا بنیاد رکھا جسکا بنیادی مقصد تھیلیسیمیا کے بچوں کے خاندان کے افراد کے دکھوں میں شریک ہونےاور تھیلیسمیا کے حوالے سے عوام کو آگاہی فراہم کرنا تھا۔

  1. چونکہ یہ کام ریاست اور حکومت کے ہیں مگر انکی ترجیحات میں یہ شامل نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے رضاکارانہ طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسکی بنیادرکھی۔ اسوقت ہمارے پاس 350 سے زائد ڈونرز رجسٹرڈ ہیں اور 320 تھیلیسیمیا کے بچے ، بچیاں ہیں جنکو ہر ہفتے یا پندرہ دن میں خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم بغیر کسی فیس کیچ تھیلیسیمیا سنٹر کی جانب سے انہیں خون عطیہ کرتے ہیں ۔ ہر ہفتے میں مختلف علاقوں میں خون عطیہ کیمپ لگاتے ہیں ۔


وہ کہتے ہیں کہ جب سے ہم اس ادارے کو جزبہ خیرسگالی کی بنیاد پر چلارہے ہیں ہمارے پاس آتے ہر ماں اور باپ کی دکھوں، تکلیفوں بھری کہانیاں آتی ہیں۔ کسی نے اپنے پیاروں کو دفنایا ہے اور کسی نے معصوم بچے کو اپنی ہتھیلیوں پہ رکھ کر دو خطرہ خون کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا کر کبھی مایوسی کی عالم میں تڑپتے بچے کو واپس گھر لے گئے ۔

گہرام اسلم بلوچ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے میڈیا اینڈ جرنلزم سٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور تحقیقاتی صحافی ہیں۔