کابل میں پھنسے میڈیکل کے پاکستانی طلبہ: 'ہم سے پاکستانی سفارتخانے نے کوئی رابطہ نہیں کیا'

کابل میں پھنسے میڈیکل کے پاکستانی طلبہ: 'ہم سے پاکستانی سفارتخانے نے کوئی رابطہ نہیں کیا'
پچیس سالہ اسد داوڑ کا تعلق پاکستان کے شورش زدہ علاقے شمالی وزیرستان کے ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ پاکستان میں بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب ان کو پاکستان کے سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں مل سکا تو انھوں نے کابل یونیورسٹی میں داخلے کے لئے درخواست دی اور کابل یونیورسٹی میں داخلہ ملنے میں کامیاب قرار پائے۔ اسد داوڑ کا خاندان بھی شمالی وزیرستان میں امن و امان کی غیر یقینی صورتحال اور فوجی آپریشنز کے پیش نظر متاثر ہو چکا ہے اور ان کے لئے پاکستان کے نجی میڈیکل کالج میں داخلہ لینا مالی لحاظ سے ناممکن تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کرنے کے لئے کابل کا رخ کیا اور آج کل کابل یونیورسٹی میں میڈیکل کے دوسرے سال کے طالب علم ہیں۔ مگر افغانستان میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے پیش نظر ان کی تعلیمی سرگرمیاں رک گئیں اور تاحال نہیں معلوم کہ کابل میں تعلیمی سرگرمیاں کب سے بحال ہوں گی؟

دوسرے ممالک کی طرح افغانستان میں بھی کورونا وائرس نے تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کیا لیکن حالات نارمل ہونے کے بعد جیسے ہی تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوئیں تو افغانستان میں امن و امان کے حالات مخدوش ہو گئے اور بالآخر طالبان نے کابل پر قبضہ کیا جس کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ سے منقطع ہوئیں اور اب کابل میں یونیورسٹیز اور کالجز گذشتہ دو ہفتوں سے مسلسل بند ہیں۔

طلبہ کے مطابق کابل سمیت دیگر ممالک کے اساتذہ کابل چھوڑ کر جا چکے ہیں اور اب نہیں معلوم کہ ہماری پڑھائی مکمل ہو جائے گی یا ہمارے خواب کابل کی فضاؤں میں خاک ہو جائیں گے۔

اسد داوڑ اس وقت کابل میں موجود ہیں اور انھوں نے کابل سے بذریعہ فون نیا دور میڈیا کو بتایا کہ یہاں پر سینکڑوں پاکستانی طالب علم ہیں اور زیادہ تر طالب علم میڈیکل کے شعبے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسد کے مطابق یہاں پورے پاکستان سے طالب علم ہیں مگر زیادہ تر کا تعلق خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے غریب گھرانوں سے ہے۔ اسد نے بتایا کہ افغانستان سے جس طرح لوگ سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کر رہے ہیں تو ہمیں ڈاکٹر بننے کے خواب ادھورے لگتے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔

اسد کے مطابق پوری دنیا کے طالب علم اور شہری یہاں سے نکل گئے ہیں لیکن ہم پاکستانی طلبہ کو نہیں معلوم کہ ان کا کیا ہوگا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ حال ہی میں پاکستان گئے تھے اور پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے حکام کے ساتھ ان کی ملاقاتیں بھی ہو چکی ہے جس میں ہم نے اپنا مطالبہ سامنے رکھا کہ افغانستان میں پڑھنے والے پاکستانی طلبہ کو پاکستان کے میڈیکل کالجز میں داخلہ دیا جائے۔ اسد داوڑ نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس وقت دو سو سے زائد سرکاری میڈیکل کالجز ہیں۔ جبکہ طلبہ کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے اور اگر ایک ادارے میں چار سے پانچ طلبہ کو جگہ دی جائے تو ہمارا مستقبل بچ جائے گا کیونکہ کابل میں امن و امان کی صورتحال غیر یقینی ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہونے والا ہے۔

واضح رہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وہاں سرکاری اور نجی ادارے تقریباً غیر فعال ہیں اور اطلاعات کے مطابق کابل کے تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ اور دیگر ماہرین افغانستان چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ طلحہ خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے مانسہرہ سے ہے اور ان کا تعلق بھی ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ طلحہ خان تقریباً ایک سال پہلے کابل میں واقع اریانہ یونیورسٹی میں میڈیکل کے شعبے میں داخلہ ملنے کے بعد کابل چلے گئے اور آج کل وہیں زیر تعلیم ہیں۔ طلحہ بھی اچھے مستقبل کا خواب لے کر کابل پہنچے تھے مگر افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوا اور وہ گذشتہ دو ہفتوں سے اریانہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔

طلحہ نے کابل میں واقع پاکستان کے سفارت خانے پر الزام لگایا کہ دیگر ممالک کے شہریوں کو یہاں سے نکال دیا گیا اور پاکستانی طالب علم درجنوں کی تعداد میں یہاں موجود ہے مگر تاحال حکومت پاکستان نے ان کو یہاں سے نکالنے کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ طلحہ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد یہاں صورت حال ابتر ہے اور وہ اپنے ہاسٹل میں قید ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہاں امن و امان کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر یہاں نہ صرف تعلیمی ادارے بند ہیں بلکہ اس کے ساتھ بینک اور رقوم بھیجنے والے دیگر ذرائع کے دفاتر بھی بند ہیں جس کے ذریعے ہمارے گھر والے ہمیں خرچہ بھیج دیں۔ ایک سوال پر کہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے روز کے اخراجات کیسے برداشت کرتے ہیں، طلحہ نے جواب دیا کہ کابل میں مقامی دوستوں سے قرض لے کر گزارہ کر رہے ہیں۔

طلحہ کے مطابق یونیورسٹی کے اس ہاسٹل میں واقع ایک کمرے میں ہم گذشتہ دو ہفتوں سے قید ہیں اور افغانستان میں واقع پاکستانی سفارتخانے نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ طلحہ نے مزید کہا کہ ہمارے گھر والوں نے خواب دیکھے تھے کہ ہم ڈاکٹر بنیں گے مگر اب لگتا ہے کہ ان خوابوں کے کوئی تعبیر نہیں بس ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں یہاں سے محفوظ طریقے سے نکال کر پاکستان کے میڈیکل کالجز میں داخلہ دیا جائے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔