'ملا عبدالغنی برادر طالبان کے درمیان تصادم کے نتیجے میں اقتدار کے کھیل سے باہر'

'ملا عبدالغنی برادر طالبان کے درمیان تصادم کے نتیجے میں اقتدار کے کھیل سے باہر'
وہ شخص جس کے بارے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو امید تھی کہ افغانستان میں ایک معتدل حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا، باخبر ترین ذرائع کے مطابق کابل کے صدارتی محل میں ہونے والی ایک ڈرامائی لڑائی کے بعد، جس میں دونوں اطراف سے گولیاں بھی چلیں، ایک طرف ہو چکا ہے اور اب اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا۔

ملا عبدالغنی برادر، جنہوں نے امریکہ کے ساتھ بات چیت میں طالبان وفد کی سربراہی کی تھی، نہ صرف اب طالبان کی مرکزی کابینہ سے مکمل طور پر باہر ہو چکے ہیں بلکہ بلوم برگ اخبار کے انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق امریکہ کی جانب سے دہشتگرد قرار دی گئی تنظیم حقانی نیٹ ورک کے ایک سرکردہ رہنما نے ان کو ستمبر کے اوائل میں صدارتی محل میں ہوئے کابینہ کے حوالے سے ایک اجلاس میں باقاعدہ بری طرح سے پیٹ بھی ڈالا۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ ملا غنی برادر اس اجلاس میں ایک کثیر الجہتی حکومت پر زور دے رہے تھے جس میں غیر طالبان اور غیر پشتونوں کی بھی شمولیت ہو اور یہ دنیا کے لئے بھی قدرے زیادہ قابلِ قبول ہوتی۔ لیکن اسی اثنا میں خلیل الرحمان حقانی اپنی کرسی سے اٹھے اور انہوں نے ملا غنی برادر کو گھونسے مارنا شروع کر دیے۔

لوگوں نے بلوم برگ کو یہ بھی بتایا کہ اس ہاتھا پائی میں دونوں کے باڈی گارڈ بھی کمرے میں گھس آئے اور ایک دوسرے پر فائرنگ کھول دی جس کے باعث متعدد زخمی بھی ہوئے اور کچھ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اگرچہ ملا غنی برادر اس جھڑپ میں زخمی نہیں ہوئے لیکن ذرائع کے مطابق وہ کابل چھوڑ کر قندھار چلے گئے ہیں جہاں وہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ سے ملاقات کریں گے جو کہ اب دراصل طالبان کے محض ایک روحانی رہنما ہیں۔

7 ستمبر کو جاری ہونے والی کابینہ کی فہرست میں کوئی غیر طالبان موجود نہیں تھے اور تقریباً 90 فیصد آسامیاں طالبان کے پشتون اراکین میں ہی بانٹ دی گئی ہیں۔ حقانی خاندان کے چار اراکین کو کابینہ میں جگہ ملی ہے جن میں سے سراج الدین حقانی جو کہ گروہ کے سربراہ بھی ہیں اور امریکی ایف بی آئی کی مطلوب ترین دہشتگردوں کی فہرست پر بھی موجود ہیں اب ملک کے وزیرِ داخلہ بن چکے ہیں۔ ملا غنی برادر کو دو نائب وزرائے اعظم میں سے ایک چنا گیا تھا۔ یاد رہے کہ حقانی نیٹ ورک 2016 میں طالبان میں ضم ہو گیا تھا۔

لوگوں نے بلوم برگ کو یہ بھی بتایا کہ پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ جو ان مذاکرات کے دوران کابل میں موجود تھے، وہ بھی ملا عبدالغنی برادر کے مقابلے میں حقانی خاندان کی حمایت کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ملا عبدالغنی برادر نے قریب آٹھ سال ایک پاکستانی جیل میں گزارے ہیں جس کے بعد انہیں ٹرمپ انتظامیہ کے کہنے پر امن مذاکرات کے لئے چھوڑا گیا تھا۔ بلوم برگ ذرائع کے مطابق ملا محمد حسن جو اتنے معروف طالبان رہنما نہیں ہیں، انہیں ملا عبدالغنی برادر کی جگہ وزیر اعظم کے عہدے کے لئے فوقیت دی گئی کیونکہ ان کے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات بہتر ہیں اور یوں بھی یہ حقانی گروپ کے لئے کوئی بڑا خطرہ نہیں بن سکتے۔

بلوم برگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے پاکستانی فوج کا مؤقف جاننے کی بھی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے تاحال انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاہم، گذشتہ ایک ہفتے کے دوران طالبان نے کسی بھی قسم کے تصادم کی خبروں کو رد کیا ہے۔ ملا عبدالغنی برادر بھی جمعرات کو سرکاری ٹی وی چینل پر آئے جہاں بیٹھ کر انہوں نے ان افواہوں کو رد کیا کہ ان کو قتل کر دیا گیا ہے یا وہ کسی تصادم میں زخمی ہوئے ہیں۔ لیکن 12 ستمبر کو قطری وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کے استقبال کے موقع پر وہ موجود نہیں تھے اور یہ اس ہفتے کی شروعات میں طالبان کابینہ کے پہلے اجلاس میں بھی موجود نہیں تھے۔

ٹی وی پر مختصر خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ وہ اللہ کے فضل و کرم سے بالکل ٹھیک تھے اور میڈیا کی جانب سے یہ بیانات بھی بالکل غلط ہیں کہ ہمارے درمیان کوئی آپسی اختلافات ہیں۔ انہوں نے قطری وزیر خارجہ کے استقبال کے موقع پر اپنی غیر موجودگی سے جڑے خدشات کو بھی رد کیا۔ جہاں بہت سے حقانی گروپ کے اراکین موجود تھے۔ یاد رہے کہ ملا عبدالغنی برادر کئی سال قطر میں مقیم رہے ہیں اور قطر ہی نے امریکہ کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ ختم کرنے کے لئے ہوئے مذاکرات میں طالبان اور ٹرمپ کے سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو کی مدد کی تھی۔

"میرے علم میں نہیں تھا کہ قطری وزیر خارجہ آ رہے ہیں۔ میں ان کے دورے کے دوارن سفر میں تھا اور اپنے دورے کو مختصر کر کے کابل واپس آنا میرے لئے ممکن نہیں تھا"۔

طالبان کے ترجمان بلال کریمی نے بلوم برگ سے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملا برادر کو بالکل سائڈ لائن نہیں کیا گیا اور ان کے جلد واپس آنے کی امید ہے۔

طالبان گروہوں کے درمیان یہ تصادم کی خبریں مغربی ممالک کے لئے باعثِ تشویش ہیں جنہوں نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ اس بار معتدل رویہ اختیار کریں اور خواتین کے حقوق کا احترام کریں۔ جریدے کے مطابق چین اور پاکستان امریکہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ افغانستان کے اثاثوں کو غیر منجمد کرے کیونکہ ملک میں مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہ ایک معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔

حقانی گروپ اور طالبان کے درمیان تعلقات کبھی بھی بہت شاندار تو نہیں تھے۔ مگر انس حقانی جو کہ گروپ کے ایک سرکردہ لیڈر ہیں ٹوئٹر پر آئے اور انہوں نے اختلافات کی خبروں کی تردید کی۔

https://twitter.com/AnasHaqqani313/status/1438194842518052872