"ہمارے بچے لاپتہ نہیں، اغواہ کیے گئے ہیں" گوادر میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ کادھرنا 4 روز سے جاری

لاپتہ بلوچوں کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے لگائے گئے کیمپ کو 4443 دن مکمل ہوچکے ہیں اور بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے اس سے پہلے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد پیدل مارچ بھی کیا ہے مگر بلوچستان سے لاپتہ افراد کی تعداد کم ہونے کی بجائے دن بہ دن اس لسٹ میں اضافہ ہورہا ہے۔

گزشتہ چار دنوں سے گوادر میں، گوادر پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے لواحقین دھرنہ دیئے ہوئے ہیں۔ جن میں رواں مہینے جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے ماہی گیر نوجوان عارف در محمد، عادل نبی بخش، عبدالمطلب محمد حسن اور ہاشم قاسم کے اہلخانہ شامل ہیں۔ احتجاج پر بیٹھے ہوئے لاپتہ افراد کےاہلخانہ حکومت سے اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی میں کردار ادا کرنےکی اپیل کر رہے ہیں۔

اس سے پہلے لاپتہ افراد کے لواحقین نے اسلام آباد میں ڈی چوک پر بھی دھرنہ دیا تھا جہاں انسانی حقوق کی وزیر اور وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات اور یقین دہانی کے بعد لواحقین نے اپنا دھرنہ ختم کیا۔ اس یقین دہانی کے بعد چند لوگ بازیاب بھی ہوئے تھے جس پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرپرسن نصراللہ بلوچ نے عمران حکومت کا شکریہ بھی ادا کیا تھا مگر لوگوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ واضح رہے لاپتہ افراد کے معاملے کو چیف آف آرمی نے بھی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔



گوادر میں چار لاپتہ نوجوانوں کے لواحقین بھی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کو بازیاب کرانے میں حکومت اپنا کردارادا کرے۔ گوادر پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والوں میں شامل محمد صدیق بلوچ کا بھتیجا محمد عارف بھی لاپتہ ہے۔ صدیق بلوچ کے بقول محمد عارف کو ستائس اگست کی رات ایک بجے ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔ صدیق بلوچ کا کہنا ہے کہ محمد عارف مزدوری کرتے تھے وہ سمندر جاتے تھے اور ماہی گیری کرکے اپنا گزارہ کرتے تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں "اگر محمد عارف نے کوئی جرم کیا ہے تو انھیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ ہمیں انصاف دیا جائے اور ہمارے بچوں کو بازیاب کیا جائے" انہی لاپتہ افراد کے لواحقین میں محمد ہاشم بلوچ بھی پریس کلب کے سامنے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ وہ نیا دور سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "میرے بیٹے کا نام قاسم بلوچ ہے اور میں وہ بدقسمت والد ہوں جس نے خود اپنے بیٹے کو ان کے حوالے کیا، میرے بیٹے کو انھوں نے فون کرکے بلایا تھا تو میں نے جانے نہیں دیا پھر انھوں نے مجھے فون کیا کہ تمھارے بیٹے سے کچھ پوچھ گچھ کرنی ہے تو میں خود اپنے بیٹے کو نادرہ کملیکس لے آیا جہاں سے وہ میرے بیٹے کو لے گئے اور اب تک کوئی جواب نہیں دے رہے" محمد ہاشم کہتا ہے کہ ان کے آنکھوں کے سامنے ان کے بیٹے کو اٹھایا گیا ہے اس لیئے وہ لاپتہ نہیں ہے اس کو اٹھایا گیا ہے بلکہ اغواہ کیا گیا۔

لاپتہ افراد کے لواحقین علاقائی نمائندوں، ایم پی اے گوادر اور گوادر سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سے گلہ کررہے ہیں کہ پچھلے تین دنوں سے وہ دھرنا دیئے ہوئے ہیں مگر کسی نمائندے نے ان سے اظہار یکجہتی کرنے کی بھی تکلیف نہیں کی۔ تاہم اب بھی وہ مایوس نہیں ہیں۔ صدیق بلوچ کہتے ہیں "ابھی تک نہ تو ماہی گیروں کی مختلف تنظیموں کا کوئی نمائندہ یہاں آیا نہ کوئی منتخب نمائندہ، ہمارے بچے بھی ماہی گیر ہیں مگر کوئی بولنے کو تیار نہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ لاپتہ افراد کے لیئے وہ کبھی تو بولینگے" صدیق بلوچ لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے آئینی و قانونی حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔

واضح رہے اس سے پہلے گزشتہ کئی مہینوں سے گوادر میں پانی و بجلی کی بحران کے خلاف مسلسل احتجاج ہورہے ہیں۔ ان احتجاجوں کے خلاف ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ایک نوٹیفکشن جاری کیا گیا تھا جس میں گوادر پریس کلب اور سورگ دل فٹبال گراؤنڈ کے علاوہ اور کسی جگہ احتجاج نہ کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ گزشتہ تین دنوں سے پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے دھرنے پر ابھی تک انتظامیہ کی طرف سے کوئی بھی نہیں آیا۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سکریٹری مولانا ہدایت الرحمن بلوچ لاپتہ افراد کے کیمپ میں اظہار یکجہتی کے لیئے بیٹھے ہیں۔ وہ ڈپٹی کمشنر کی احتجاجوں پر پابندی کی نوٹیفکشن کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انتظامیہ کے پاس تو وی آئی پیز اور چائینیز کے علاوہ کسی کے لیے وقت ہی نہیں ہے کہ وہ یہاں آئیں اور لواحقین کی باتیں سنیں۔ وہ کہتے ہیں "ان اداروں میں موجود لوگوں کے پاس دل نہیں ہیں ورنہ وہ ان لواحقین کے درد و کرب کو ضرور محسوس کرتے۔ لوگوں کو اٹھانا اور غائب کرنا عدالتوں پر ایک سیاہ داغ ہے مگر ہمارے اداروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا" لاپتہ افراد کے لواحقین اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملکی آئین و قانوں کی عزت کریں اور حکومت وقت ان کے بچوں کو بازیاب کرانے میں ان کی مدد کرے۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیئے اس وقت بلوچستان کے دو شہروں کوئٹہ اور گوادر میں دھرنے جاری ہیں۔ کوئٹہ میں قائم لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لگائے گئے کیمپ سے ماما قدیر نے گوادر میں لگائے گئے کیمپ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے بلوچستان اور ملک بھر کے تمام بڑے شہروں میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیئے کیمپ لگانے کی اپیل کی ہے۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔