اگر ہمارے بچوں کے قاتل طالبان کو معافی دوگے تو بم گرا کر ہمیں بھی ختم کردو، ورثا شہدائے اے پی ایس

اگر ہمارے بچوں کے قاتل طالبان کو معافی دوگے تو بم گرا کر ہمیں بھی ختم کردو، ورثا شہدائے اے پی ایس
اسلام آباد: صدر پاکستان عارف علوی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی کی پیشکش پر شہدائے آرمی پبلک سکول پشاور کے والدین نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے ہمارے بچوں کے قاتل طالبان کو معافی دینی ہے تو اس سے پہلے ہم پر بم گرا کر ہمیں بھی ماردو۔

اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے اپنے مطالبے میں کہا کہ ہمارے زندہ ہوتے ہوئے آپ طالبان کو معاف نہیں کرسکتے۔

اے پی ایس میں شہید ہونے والے نوجوان طالب علم اسفند کی والدہ شہانا بھی اس مظاہرے میں شریک تھیں اور انہوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ صدر عارف علوی اور شاہ محمود قریشی نے طالبان کو معافی کی آفر کر دی تھی کیا ان کو پتہ نہیں کہ وہ ہمارے بچوں کے قاتلوں کو معاف کررہے ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے بچوں کے سکول جانے کی عمر تھی مگر ان کو قربانی کا بکرا بنا کر مارا گیا اور ایک طرف ذمہ داروں کو سزا نہیں دی جارہی ہے تو دوسری جانب ہمیں انصاف نہیں مل رہا ۔ اور اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کے بچوں کے قاتلوں کو معاف کررہے ہیں۔ شہانا نے مزید کہا کہ اگر انہیں معاف کیا گیا تو ہم خود کو پارلیمنٹ کے سامنے آگ لگادینگے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر پاکستان اور وزیر خارجہ کی جانب سے تحریک طالبان کو معافی کی آفر کی گئی تھی مگر طالبان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک مبینہ اعلامیے کے مطابق طالبان نے حکومت کی اس آفر کو ٹھکرا کر کہا تھا کہ انہیں اپنے کئے پر کوئی ندامت نہیں بلکہ وہ شریعت کے قیام کے لیے اپنے کئے گئے تمام کاموں پر فخر کرتے ہیں اور سیکولر اور کافر قوتوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔

اے پی ایس میں مارے جانے والے طالب علم باسط علی کی ماں صدف سردار بھی اس احتجاجی مظاہرے میں شریک تھیں۔ انھوں نے اپنے مرحوم بیٹے کی تصویر اٹھائی ہوئی تھی۔ صدف سردار کے شوہر اور مرحوم باسط علی کے والد بیٹے کے جدائی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

ان کی ماں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ہمارے بچوں کو بے دردی سے مارا گیا۔ نہ فوج نے ہمیں انصاف دیا، نہ حکومت کی جانب سے ہمیں انصاف ملا اور نہ ہی ہمارے گھر گھر رہے بلکہ ہم قبرستان میں جی رہے ہیں کیونکہ بیٹے کی جدائی کے بعد شوہر کی جدائی بھی برداشت کرنا پڑی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اے پی ایس کے روز فوج کے جن لوگوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ان کو تاحال سزا نہیں ملی اور کمیشن بننے کے باوجود ہمیں انصاف نہیں ملا۔

انہوں نے صدر عارف علوی اور وزیر خارجہ کی جانب سے معافی کے بیانات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ریاست کے لئے شرم کا مقام ہے کہ وہ دہشتگردوں اور ہمارے بچوں کے قاتلوں کو معاف کررہے ہیں، ان کو نہیں معلوم کے جوان بیٹے کی لاش اٹھانے کے بعد جوان شوہر کی لاش اٹھانا کتنا مشکل اور درد ناک ہے اور یہ درد ہم سمجھ سکتے ہیں یہ نہیں کیونکہ انھوں نے لاشیں نہیں اٹھائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری زندگی سڑکوں کی نظر ہوگئی اور ہم انصاف کے لئے دربدر دھکے کھا ہیں لیکن اب جو طالبان کو معافی کی آفر کی گئی تو ہماری درخواست ہے کہ ہم سب خاندانوں کو اکھٹے کرکے ہم پر بم گرا دو تاکہ اے پی ایس کا سانحہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوجائے۔

احتجاج میں اے پی ایس میں دو بیٹوں سیف اللہ درانی اور نور اللہ درانی کی لاشیں اٹھانے والی ماں فلک ناز بھی شریک تھیں۔ انہوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان ہمارے پاس آئے تھے اور انہوں نے ہمیں کہا کہ میں اے پی ایس کا مقدمہ لڑونگا اور میں آپ کا وکیل بنوں گا۔ لیکن ہم نے انہیں ووٹ دیکر غلطی کی کیونکہ انہوں نے تمام وعدوں کی طرح اے پی ایس کا وعدہ بھی بھلادیا اور ہمیں تاحال انصاف نہیں ملا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب حکومت کی جانب سے طالبان کو معافی کی آفر سامنے آئی تو ہمیں ایسا لگا کہ ہم نے دوبارہ سے اپنے بچوں کی لاشیں اٹھائی ہیں اور ان کا غم ایک بار پھر تازہ ہو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے معصوم بچے قتل ہوئے، ہمارے گھر تباہ و برباد ہوگئے لیکن معافی صدر اور وزیر خارجہ دے رہے ہیں، آپ کون ہوتے ہیں ہمارے بچوں کے قاتلوں کو معافی دینے والے؟

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر سانحہ آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والے جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو عام کر دیا گیا تھا۔ رپورٹ میں سانحے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا تھا ۔

تین ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غداری کے سبب سیکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا اور دہشت گردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا جبکہ دہشت گردوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری ناقابلِ معافی ہے۔

سعدیہ گل جنھوں نے انگریزی ادب میں ماسٹر کیا تھا، اے پی ایس میں بطور استاد اپنے فرائض سرانجام دیں رہی تھیں اور وہ سانحہ اے پی ایس کے دن دہشتگردی کا شکار ہوئیں۔ سعدیہ گل کی عمر اس وقت 26 سال تھی اور اے پی ایس میں ماسٹرز کے بعد انہیں وہاں پہلی نوکری ملی تھی۔ سعدیہ گل کی ماں بھی اس مظاہرے میں شریک تھیں اور انہوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ میں نے خود فاقے برداشت کرکے اپنی بیٹی کو پڑھایا تاکہ بڑھاپے میں اچھے دن دیکھ سکوں مگر دہشت گردوں کی بے رحمی اور ریاست کی ناکامی نے میری بیٹی کو مجھ سے چھین لیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جب میری بیٹی کی لاش لائی گئی تو میں نے اس کے پورے جسم کو ٹٹول دیا اور دیکھا کہ 9گولیاں اس کے سینے اور پیٹ میں لگی تھیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ آپ بتادو کہ اپنی معصوم بیٹی کو 9 گولیاں مارنے والے درندوں کو ریاست معافی کیسی دے سکتی ہے؟ سعدیہ گل کی ماں نے کہا کہ ہم خود خاک ہوجائیں گے، سپریم کورٹ کے سامنے خود کو آگ لگادینگے لیکن اپنے بچوں کے قاتلوں کو معاف کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔