سکوڈ گیم، منی ہائیسٹ اور کوئین گیمبٹ: ناکامی کے بعد شہرت کی بلندیاں حاصل کرنے کی کہانیاں

سکوڈ گیم، منی ہائیسٹ اور کوئین گیمبٹ: ناکامی کے بعد شہرت کی بلندیاں حاصل کرنے کی کہانیاں
نیٹ فلیکس کے مشہور سیزنز سکوڈ گیم، منی ہائیسٹ اور کوئین گیمبٹ کا شمار دنیا کے بہترین سیزنز میں ہوتا ہے جن کے کروڑوں لوگ دیوانے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کے لکھاریوں، پرڈیوسرز اور فنکاروں کو شروع میں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سکوئڈ گیم



نیٹ فلیکس کے مشہور سیزن سکوئڈ گیم نے اس وقت دنیا بھر میں دھوم مچا رکھی ہے۔ اس وقت یہ دنیا کے 90 مختلف ممالک میں نیٹ فلکس پر سب سے زیادہ دیکھا جانے والا شو ہے۔

یہ ایک طرح کے سائنس فکشن پر مبنی کہانی ہے جس میں لوگوں کو ایک ایسی گیم کھیلنے کے لئے زبردستی لایا جاتا ہے جس سے باہر نکلنا ان کے لئے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

اس گیم میں ہارنے والے کو فوری طور پر جان سے مار دیا جاتا ہے اور کسی بھی قسم کی غلطی کی سزا سیدھی موت ہوتی ہے۔ تاہم کھیلنے والوں کو بعد میں بتایا جاتا ہے کہ آپ میں سے چھ خوش نصیب ایسے ہوں گے جو اس کھیل میں فاتح ہوں گے اور انہیں کروڑوں ڈالرز دیے جائیں گے اور اس کھیل میں جیتنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ بہترین ٹیم کا انتخاب کریں جو آپ کو اس کھیل میں آگے بڑھنے میں مدد دے۔ کسی قسم کے احتجاج کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ کھیل سے باہر نکلنے والے کو فوری طور پر جان سے مار دیا جاتا ہے۔



آگے کیا ہوتا ہے اور یہ تمام افراد اس کھیل سے باہر نکلنے میں کیسے کامیاب ہوتے ہیں، اس کے لئے آپ کو یہ سیزن دیکھنا ہوگا۔ اس سیزن کے فلسفیانہ پیغام کو بھی اسے دیکھ کر ہی سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

تاہم، اس سے زیادہ دلچسپ اس سیزن کے مصنف ہوانگ ڈونگ ہیوک کی کہانی ہے جو 2009ء میں یہ کہانی مکمل کر چکے تھے لیکن ان کے اس ڈرامے کی کسی نے حوصلہ افزائی نہ کی۔

جنوبی کوریا میں بننے والے اس سیزن کا سکرپٹ متعدد سٹوڈیوز سے مسترد ہوا اور کم از کم چھ بار وہ اس کو شروع سے لکھ چکے تھے۔ اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب ہوانگ ڈونگ ہیوک کو مالی طور پر اتنی تنگی کا سامنا کرنا پڑا کہ انہیں اپنا لیپ ٹاپ بھی بیچنا پڑا جو کہ 700 ڈالر سے بھی کم میں فروخت ہوا۔

لیکن آج ان کا لکھا سیزن دنیا کا ناصرف موجودہ حالات میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والا شو ہے بلکہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ نیٹ فلیکس کی تاریخ کا سب سے زیادہ دیکھے جانے والا شو بننے کی طرف بھی گامزن ہے۔ دنیا بھر سے اس کے مصنف اور ڈرامے کی execution کے حوالے سے تعریفوں کے تانتے بندھے ہوئے ہیں اور یہ کہا جائے کہ ہوانگ ڈونگ ہیوک نے دنیا کو ڈرامے کی ایک نئی صنف سے روشناس کروایا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

منی ہائسٹ



یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ نیٹ فلکس کے کسی سیزن نے اس طرح دنیا میں دھوم مچائی ہو اور اس سے پہلے اسے ایک ناکام کہانی تصور کیا جا رہا ہو۔ حال ہی میں ختم ہوئے منی ہائیسٹ کا شمار بھی ایسے ہی ڈراموں میں ہوتا ہے۔ یہ سیزن چند برس پہلے سپین میں بنایا گیا تھا اور اس کی اپنی زبان بھی ہسپانوی تھی۔ لیکن یہ شو اس بری طرح سے فلاپ ہوا کہ ہسپانوی چینل ایتھینا 3 نے نہ صرف اس کے آنے والے سیزن منسوخ کر دیے بلکہ اس کے پہلے سیزن کے بھی کچھ چیپٹرز کو مزید چھوٹا کر کے اسے جلد از جلد بس ختم کرنے کی کی۔ یہی وجہ تھی کہ نیٹ فلکس نے شو ختم ہونے کے محض تین ماہ بعد جب اسے اپنے ناظرین کے لئے خریدا تو اس کی قیمت محض دو ڈالر تھی۔

اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ کیسے دو ڈالر میں بکنے والا یہ ڈرامہ دنیا کے درجنوں ممالک میں کئی کئی ماہ پہلے نمبر پر رہا اور نیٹ فلکس کے ماضی کے کئی ریکارڈز اس نے تہس نہس کر ڈالے۔ نیٹ فلکس نے بھی بغیر کسی تشہیر کے یہ سیزن ریلیز کر دیا تھا لیکن اس کے بعد صرف دو ہفتوں کے اندر اندر پوری دنیا میں اس سیزن نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ دنیا حیران ہے۔



ایک بینک چوری پر بننے والا یہ سیزن دنیا کے کئی ممالک میں فلمایا گیا اور پانچ سیزنز کے بعد جا کر اختتام پذیر ہوا کہ جب دنیا بھر میں اس کے ہدایتکار اور لکھاری کو جان اور مان لیا گیا۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس ڈرامے میں کام کرنے والے افراد تو دوسرے کام تلاش کر کے اپنی اپنی زندگیوں میں محو ہو چکے تھے جب اچانک ان سب نے محسوس کیا کہ ان کے ٹوئٹر پر فالؤرز کی تعداد میں یکایک اضافہ ہونے لگا ہے۔ تب جا کر انہیں اندازہ ہوا کہ ان کی وہ ڈرامہ سیریز جسے یہ سب ایک ڈراؤنا خواب سمجھ کر بھلا دینا چاہتے تھے، اس نے ان سب کو دنیا بھر میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ نیٹ فلکس نے اس سیزن سے کیا کچھ کمایا ہوگا، اس کا حساب لگانا بھی شاید ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ صدیوں سے عوام میں مقبول اطالوی لوک گیت بیلا چاؤ کو بھی اس ڈرامے نے ایک نئی جلا بخشی کیونکہ لوگ جاننا چاہتے تھے کہ پروفیسر اور برلن یہ کون سی مدھر دھن گنگنا رہے ہیں اور ان سے قبل ان کے ساتھی جسے بینک میں بے تحاشہ پیسہ دیکھ کر خوشی سے جھومتے گانے لگے تھے۔

کوئین گیمبٹ



کوئین گیمبٹ کا شمار بھی دنیا کے بہترین سیزنز میں ہوتا ہے جن کے کروڑوں لوگ دیوانے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کے لکھاری، پرڈیوسر اور فنکاروں کو بھی شروع میں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اسے اب تک 62 ملین یعنی 6 کروڑ 20 لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں۔ اس کے پرڈیوسر ایلن سکاٹ کا ایک انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ انہوں نے 30 سال تک مسلسل ناکامیوں کا سامنا کیا۔ یہ سیزن بھی انہوں نے کئی مرتبہ لکھا۔ انہیں کہا جاتا تھا کہ یہ سیزن کسی کام کا نہیں، لوگوں کو شطرنج جیسے خشک کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ لیکن پھر انہوں نے بھی ان ناقدین کو خاموش کروا کر دکھایا۔



ان کامیابیوں سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ دنیا کچھ بھی کہے، انسان کو وہی کرنا چاہیے جو اسے کرنا آتا ہے۔ اچھی نیت سے کیا ہوا اچھا کام اور کچھ نہ سہی انسان کو سبق ہی دے جاتا ہے۔ اور اگر کسی کے نصیب میں سکوئڈ گیم، منی ہائسٹ یا کوئین گیمبٹ جیسا عروج لکھا ہو تو سونے پہ سہاگہ۔