بلوچستان: دو بوڑھے افراد کا لاشوں کے ساتھ دھرنا مارچ میں تبدیل، ورثا انصاف کے لیے کوئٹہ روانہ

بلوچستان: دو بوڑھے افراد کا لاشوں کے ساتھ دھرنا مارچ میں تبدیل، ورثا انصاف کے لیے کوئٹہ روانہ
سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوتی ہے جس میں تربت کے شہید فدا چوک کا منظر ہے، سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے دو بوڑھے شخص تابوتوں میں رکھی ہوئی دو لاشوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اس تصویر نے ایک سال پہلے تربت میں قتل کیے گئے طالب علم حیات بلوچ کی اس تصویر کی یاد تازہ کی جس میں حیات کی لہولہان لاش درمیان میں پڑی ہے جبکہ ان کا بوڑھا باپ ہاتھ سر پہ رکھ کر ماتم کر رہا ہے اور ماں اوپر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے دیکھ رہی ہے۔ اس تصویر میں بھی ویسا ہی منظر ہے۔ وہی ماتم، ہلکی روشنی میں صبح کا سناٹا، اکتوبر کی خُشک سردی میں سنسان چوراہے پر پڑے دو تابوت اور دو سفید ریش پیر مرد۔



یہ دو تابوت دو بچوں کی لاشیں ہیں جن کے لواحقین کا الزام ہے کہ ضلع کیچ کے تحصیل ہوشاپ کے گاؤں پرکوٹک میں اتوار کی صبح دس بجے قریبی ایف سی کی چیک پوسٹ سے ایک گولہ فائر ہوا جو ان کے گھر صحن میں آ گرا جہاں بچے کھیل رہے تھے۔ اس زور دار دھماکے میں ان کے دو بچے ہلاک ہوئے اور ایک بچہ زخمی، ہلاک شدہ دونوں بچے آپس میں بہن بھائی تھے۔ لواحقین نے لاشوں کے ساتھ تربت کا رخ کیا جہاں تین دن تک شہید فدا چوک پر دھرنا دینے کے بعد وہ میتوں کے ساتھ صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کی طرف نکل چکے ہیں۔



دھرنے میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ڈپٹی کمشنر کیچ نے آکر لواحقین کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق بچے ایک دستی بم کو کھلونا سمجھ کر کیھل رہے تھے کہ اس کا پن نکلنے سے دھماکہ ہوا۔ ڈپٹی کمشنر نے دھرنا ختم کرنے اور بچوں کی میتوں کو دفنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے آل پارٹیز کیچ، سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندوں کو جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کا کہا۔ دورے کے بعد آل پارٹیز کیچ نے دھرنے کے مقام پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے مزید ایک خبر پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہاں جاکر انھیں پتہ چلا ہے کہ ایف سی کی طرف سے بچوں کی قبریں بھی کھودیں گئی ہیں اور اہل علاقہ کو ہراساں کیا جارہا ہے کہ تربت سے لاشوں کو لاکر فوراً دفنایا جائے۔ اس عمل کے بعد آل پارٹیز نے ضلعی انتظامیہ پر سیکیوریٹی فورسز کی پُشت پناہی کرنے کا الزام لگایا۔ دھرنے میں آخری ناکام مزاکرات میں ایک اور خاندان نے شرکت کی جن کے مطابق ستمبر کو ایف سی کی فائرنگ سے ان کے خاندان کی ایک خاتون تاج بی بی بھی ہلاک ہوئی تھیں۔ ڈپٹی کمشنر کی یقین دہانی کے بعد انھوں نے لاش کو دفنایا تھا کہ ایف سی اہلکار کو گرفتار کیا جائے گا مگر بعد میں ایف آئی آر ہی بدل کر نامعلوم افراد کے خلاف درج کرایا گیا۔



دھرنے میں مذاکرات کے وقت کی ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ڈپٹی کمشنر کے لاشوں کو دفنانے کے مطالبے کے جواب میں ایک عمر رسیدہ خاتون ڈپٹی کمشنر سے مطالبہ کرتی ہے کہ ایف سی کے خلاف ایف آئی آر کرکے انھیں گرفتار کیا جائے تب لاشیں دفنائیں گے۔ ڈپٹی کمشنر خاتون کو خاموش کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اے ماسی، مرد یہاں بیٹھے ہیں، آپ خاموش رہیں۔ میری بات سُنیں' ڈپٹی کمشنر کے اس رویے کو سوشل میڈیا پر بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بی بی سی اردو کے مطابق ڈی سی نے اپنے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا مقصد مذاکرات کو کامیاب کرانے کے لیے کسی نتیجے پر پہنچنا تھا جو کہ شور سے ممکن نہیں تھا۔

تربت کے شہید فدا چوک پر یہ ایک ہفتے کے اندر لاشوں کے ساتھ دوسرا دھرنا تھا۔ چند روز پہلے بلیدہ سے لواحقین ایک بچے کی لاش کے ساتھ تین دن تک دھرنے کے بعد صوبائی دارلحکومت کوئٹہ گئے تھے جہاں دو دن لاش کے ساتھ دھرنہ دیا گیا تب جاکے ان کے مطالبات تسلیم کیے گئے اور لواحقین کے مطابق رات کو سیکیوریٹی فورسز نے چھاپے کے دوران ان کے گھر پر اندھا دند فائرنگ کی جس میں ایک بچہ ہلاک جبکہ ایک بچہ ماں سمیت زخمی ہوا تھا۔ گھر کے ایک فرد کو سیکوریٹی فورسز ساتھ لے گئے تھے جسے بازیاب کرنے کے بعد لواحقین نے دھرنہ ختم کیا اور بچے کی میت کو ان کے آبائی علاقے بلیدہ میں دفنایا۔



اس وقت کی اطلاعات کے مطابق یہ بچوں کے ساتھ قافلے کو منگل اور بدھ کی درمیان شب کئی گھنٹے تک راستے میں روکا گیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کوئٹہ کے مطابق لواحقین کو زبردستی روک کر لاشوں کو دفنانے کے لیے مجبور کرانے کی کوشش کی گئی تھی اور علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولت تو پہلے سے نہیں ہے لیکن موبائل سروسز بھی بند کر دی گئی تھیں اور مارچ کے شرکاء سے رابطہ نہیں ہو رہاتھا۔ تاہم بدھ کی صبح اطلاعات کے مطابق مارچ کئی گھنٹے روکنے کے بعد سوراب تک پہنچ گیا تھا۔ اور اگر راستے میں نہ روکا گیا تو بدھ کی شام کو کوئٹہ پہنچ جائے گا۔



بلوچستان میں سیاسی حلقوں کا سیکیوریٹی چیک پوسٹوں اور ان کے اختیارات پر خدشات اب کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ سیکیوریٹی اداروں کے اختیارات اس قدر سوالیہ نشان بن چکے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ان اداروں پر الزام ہے کہ یہ خود کسی قانون کو نہیں مانتے۔ چیک پوسٹوں پر کئی گھنٹوں کی تلاشی، کہاں سے آرہے ہو کہاں جا رہے ہو؟ کلمہ طیبہ سناؤ؟ ہاتھ اوپر کرو جیسے سوالات سے لوگ اب اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ اب بے خوف ہوکر کھل کر اس کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے جس کی ایک مثال 30 ستمبر کو گوادر میں ہونے والا ایک احتجاجی جلسہ ہے۔ جس میں کئی برس بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ سیکیوریٹی فورسز پر بلوچستان میں لوگوں کو اغواہ کرنے اور مارنے کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں تاہم بلوچستان کے حالات دن بہ دن تشویش ناک ہوتے جارہے ہیں۔ جس طرح ریاست کی نظر میں پہلے صرف تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان اور سیاسی کارکنان مشکوک تھے اب جنگل میں لکڑیاں کاٹنے والی بلوچ خواتین سے لیکر چرواہے اور بچے بھی مشکوک ہوتے جارہے ہیں۔ اسی لیے اب کہیں سے کوئی بھی گولی یا گولہ کسی کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔