ڈسکہ میں فرقہ ورانہ کشیدگی کو نہ روکنے پر پولیس افسران کے خلاف انکوائری کی جائے گی، آئی جی پنجاب

ڈسکہ میں فرقہ ورانہ کشیدگی کو نہ روکنے پر پولیس افسران کے خلاف انکوائری کی جائے گی، آئی جی پنجاب
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے امام حسین کے چہلم کے موقعے پر فرقہ ورانہ کشیدگی کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان کو احکامات دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ پولیس ایس ایچ او سمیت دیگر پولیس افراد کے خلاف کاروائی کی جائے۔

کمیٹی کو ڈسکہ سے آئے ہوئے اہل تشیع کمیونٹی کے اہلکاروں نے بتایا کہ ڈسکہ میں مذہبی رواداری کا ایک پر امن ماحول ہے اور محرم اور چہلم کے موقعے پر اہل سنت برادری کی جانب سے سبیل کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر امام چہلم کے موقعے پر ایک مشتعل ہجوم نے اہل تشیع کے جلوس پر پتھراؤ اور فائرنگ کی اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او فائرنگ کرنے والے کے ساتھ کھڑے تھے اور فائرنگ کرنے والے کو روک نہیں رہے تھے۔ کمیٹی میں آئی جی پنجاب اور کمیٹی ممبران کی موجودگی میں ویڈیو دکھائی گئی جس میں ایس ایچ او فائرنگ کرنے والے شخص کے عقب میں موجود ہے ۔ کمیٹی نے پنجاب پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر حال میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنایا جائے۔

کمیٹی کو آئی جی پنجاب نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ان کو ویڈیو کا نہیں معلوم لیکن وہ متعلقہ ایس ایچ او سمیت دیگر پولیس اہلکاروں کے خلاف انکوائری کریں گے اور امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنائیں گے۔ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پولیس کے لئے محرم سے لیکر چہلم تک کا وقت بہت مشکل ہوتا ہے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لئے پولیس فورس ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ محرم اور چہلم کے جلوس کے لئے روٹس پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں جہاں پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے جوان سمیت افسران تعینات ہوتے ہیں مگر ڈسکہ میں چہلم کا جلوس ایک نئے روٹ پر سامنے لایا گیا جس کے لئے نہ اجازت لی گئی تھی اور نہ اس روٹ پر پہلے سے کوئی جلوس گزرتا تھا۔

یہ جلوس جب اہل سنت کے علاقے سے گزر رہا تھا تو یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا اور اگر منتخب شدہ روٹس کے باہر جلوس نکالے جائینگے تو مستقبل میں بھی ایسے مسائل سامنے آئیں گے اس لئے میں گزارش کرونگا کہ متعلقہ روٹس پر ہی جلوس نکالے جائینگے تاکہ امن و امان برقرار رہے۔

کمیٹی نے پنجاب پولیس سے پوچھا کہ کیا ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جس پر پنجاب پولیس کے افسران نے جواب دیا کہ تاحال ملزم گرفتار نہیں ہوا۔ جس پر کمیٹی نے آئی جی پنجاب کو بتایا کہ فائرنگ کرنے والے سمیت دیگر ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔ کمیٹی کو ڈسکہ سے آئے ہوئے ایک شکایت کنندہ نے بتایا کہ ایک وقوعہ کا ایک ہی ایف آئی ار درج ہوتی ہے مگر ایس ایچ او نے ذاتی خواہش پر دو ایف آئی ار درج کر لیں اور ہمیں دھمکی دی کہ میں جلوس منقد کرنے والوں پر میں پرچے کرادونگا۔ ایس ایچ او نے انہیں دھمکی دی کہ آپ تمام لوگوں کو شیڈول فور میں ڈال دونگا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ایس ایچ او کی دھمکیوں کے بعد ہمارے لوگوں میں خوف و ہراس ہے جس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ ایس ایچ او کے خلاف انکوائری کرائی جائے گی اور اگر ان پر الزامات ثابت ہوئے تو ان کے خلاف سخت کاروائی ہوگی۔ کمیٹی نے آئی جی پنجاب کو بتایا کہ روٹ سے باہر جلوس نکالنا غیر قانونی بھی ہے تو پھر بھی کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ دوسروں پر حملہ کریں یا ان کو نقصان پہنچائیں یا فرقہ وارنہ نعرے لگائے جائیں۔ پولیس ہر حال میں شہریوں کا تحفظ یقینی بنائے۔

کمیٹی کو غیر قانونی شناختی کارڈ کے اجرا پر بریفنگ دیتے ہوئے نادرا اور ایف آئی اے حکام نے کہا کہ کل 103 غیر ملکیوں کو غیر قانونی شناختی کارڈ جاری کئے گئے تھے جس پر ادارے نے کاروائی کرتے ہوئے نادرا کے 11 ملازمین کو گرفتار کیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔