ٹی ایل پی کا اس مرتبہ مطالبہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری نہیں، اوریا مقبول جان

ٹی ایل پی کا اس مرتبہ مطالبہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری نہیں، اوریا مقبول جان
تجزیہ کار اوریا مقبول جان نے دعویٰ کیا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان ( ٹی ایل پی) اپنی جماعت سے پابندی ہٹوانا، کیسوں کا خاتمہ اور سعد رضوی کی رہائی چاہتے ہیں۔ وہ اس مرتبہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ ہی نہیں کر رہے۔

اوریا مقبول جان یہ نے بات سما ٹی وی کے پروگرام ''ندیم ملک لائیو'' سے گفتگو میں کی۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ٹی ایل پی کیساتھ معاملات خراب ہوئے تو وزیراعظم کی جانب سے مدد کرنے کا کہا گیا جس کے بعد میں نے کالعدم تنظیم کی شوریٰ سے ملاقات کی۔

انہوں انکشاف کیا کہ ٹی ایل پی شوریٰ کا کہنا تھا کہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا معاملہ ہم اٹھانا نہیں چاہتے، اس بار ہمارے مطالبات مختلف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی سمجھتی ہے کہ فرانسیسی سفیر کا معاملہ پہلے ہی حل ہو چکا تھا، جب خادم حسین رضوی نے معاہدے کر لیا تھا کہ اس حوالے سے قرارداد اسمبلی میں لائی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی چاہتی ہے کہ سعد رضوی کو رہا کیا جائے، کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول سے نکالیں جائیں جبکہ پارٹی سے پابندی اٹھانے اور کیسز ختم کروانے کے مطالبات بھی شامل ہیں۔



اوریا مقبول جان نے پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ٹی ایل پی قیادت سے کہا کہ ان کے پہلے دو مطالبات تو قابل قبول ہیں لیکن تیسرا مطالبہ عدالتوں سے متعلق ہے اس میں وقت لگے گا۔

تجزیہ کار نے بتایا کہ میری اس اہم معاملے پر پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اعجاز چودھری سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے میرے سامنے وزیراعظم عمران خان کو ٹی ایل پی کے مطالبات میسج کے ذریعے بھیجے۔

اوریا مقبول نے کہا کہ ٹی ایل پی کی جانب سے مجھے ملاقات کے بعد بار بار فون اور میسج آئے جس میں انہوں نے کہا کہ ہم کمیٹی کے سامنے اپنے مطالبات رکھنے کو تیار ہیں، آپ برائے مہربانی وزیراعظم سے کہیں کہ وہ کمیٹی کے قیام کا اعلان کریں تاکہ مارچ کو ملتوی کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ٹی ایل پی کے یہ مطالبات حکومتی شخصیات کو پہنچاتا رہا لیکن اس پر کوئی عمل نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد ٹی ایل پی والے انتظار کرتے رہے اور آخر میں کہا کہ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر الوداع ہم مارچ کرنے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی کیساتھ معاملات طے پا گئے تھے لیکن چند بیوروکریٹس نے پھر حکومتی رٹ کی بات شروع کردی جس سے بھونچال آگیا۔