ٹی ایل پی کے تمام مطالبات سیاسی، حکومت پہلے ہی تسلیم کرلیتی تو بے گناہ پولیس اہلکار نہ مرتے: مظہر عباس

ٹی ایل پی کے تمام مطالبات سیاسی، حکومت پہلے ہی تسلیم کرلیتی تو بے گناہ پولیس اہلکار نہ مرتے: مظہر عباس
مظہر عباس نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے تمام مطالبات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ حکومت نے انھیں تسلیم ہی کرنا تھا تو اتنے بڑھ چڑھ کر بیانات کیوں دیئے اور پولیس کے جوانوں کو کیوں مروایا۔

ان کا کہنا تھا کہ کالعدم جماعت قرار دینے کی پابندی کو ختم کرانا، انڈین تعلقات کی رپورٹس منظر عام پر لانا، سعد رضوی کی رہائی اور کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول سے نکلوانے کے تمام مطالبات سیاسی ہیں۔ تحریک لبیک کی یہی چار ڈیمانڈز ہیں جنھیں حکومت پہلے دن ہی تسلیم کر سکتی تھی لیکن اس میں 17 دن کی تاخیر کی گئی۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ کس نے ٹی ایل پی کے حوالے سے 2018ء کے الیکشن میں کردار ادا کیا تھا۔ اس کی شکایت ناصرف ایم کیو ایم بلکہ مسلم لیگ (ن) بھی کرتی ہے۔ تحریک لبیک نے ان انتخابات کے دوران پنجاب میں (ن) لیگ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کو کراچی میں نقصان پہنچایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان طے پانے والا خفیہ معاہدہ کیا ہے لیکن اب تک جو چیزیں سامنے آئی ہیں ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے تمام مطالبات سیاسی نوعیت کے ہیں، اس میں حساسیت کہیں بھی نظر نہیں آتی۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ میں اس بات سے مظہر عباس سے اختلاف کرتی ہوں۔ ٹی ایل پی کیساتھ معاہدہ خفیہ ہے، اس بارے میں ابھی تک جو بھی باتیں کی جا رہی ہیں وہ صرف قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ اس سے قبل تحریک لبیک کیساتھ جو بھی معاہدے کئے گئے وہ تحریری تھے، ہم ان کے ایک ایک نکتے پر بحث اور سوال پوچھ سکتے تھے لیکن ایسے خفیہ معاہدوں میں بعض ایسی شرائط رکھ دی جاتی ہیں جن کا پتا ہی نہیں چلتا۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ماضی میں دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ملکی سیاست میں حصہ لیتی رہیں،اس لئے بریلوی مکتبہ فکر کی جماعت کو بھی یہ حق حاصل ہے لیکن مسئلہ یہ ہے لوگوں کو ڈر ہے کہ اگر یہ اکثریتی مسلک کے لوگ اسی طرح کی سیاست کرتے رہے تو ملک کی پولیٹیکل جماعتیں سکڑ کر کمزور ہو جائیں گی اور صرف مذہبی گروہ اور ان کے جھتے ہی پالیٹکس کر سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ ملک فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں چلا جائے گا اور اس وقت جو ملک کو یکجا رکھنے والی قوتیں جن میں فوج، رینجرز اور فوج شامل ہیں، وہ بھی انہیں لائنز پر ٹوٹ سکتی ہیں۔ ہمارے پاس بہت لبنان، عراق اور شام کی بہت خوفناک مثالیں موجود ہیں۔ لہذا لوگوں کو سوچنا ہوگا کہ اس کا حل کیا ہے۔

رضا رومی کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے ٹی ایل پی کے مطالبات کو ماننا ہی تھا تو معاملات کو بگڑنے ہی کیوں دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بالکل مختلف طرز کے اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ متشدد ہے اور ایسی ہی تاریخ بتاتا ہے لیکن ہمارے صوفیائے کرام، سائنسدانوں، فلسفیوں اور مفکرین کا ذکر تک نہیں کرتا۔