سینیٹ کمیٹی نے خواتین کے وراثت کا آئینی ترمیمی بل کن وجوہات پر مسترد کیا؟

سینیٹ کمیٹی نے خواتین کے وراثت کا آئینی ترمیمی بل کن وجوہات پر مسترد کیا؟
اسلام آباد :بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نےخواتین کے وراثت کو بنیادی حق قرار دینے کا مطالبہ آئینی ترمیمی بل کو کثرت رائے سے مسترد کردیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر سعدیہ عباسی کی جانب سے خواتین کے لیے وراثت کے حقوق کو آئین کے تحت بنیادی حق کے طور پر شامل کرنے کے لیے پیش کیے گئے بل پر بحث کے دوران کمیٹی کے ارکان اپنی رائے میں منقسم پائے گئے۔

کمیٹی ممبر سعدیہ عباسی نے بل کے زریعے آئین میں ایک نیا آرٹیکل 24 (اے) شامل کرنے کی تجویز دی تھی اور مجوزہ ترمیم میں لکھا تھا کہ ’پاکستان میں کسی بھی عورت کو وراثت میں اس کے حصے سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

تاہم کمیٹی ممبران فاروق ایچ نائیک اور اور اعظم سواتی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ اس طرح کے قوانین پہلے سے موجود ہے لیکن اس کے نفاذ کے لئے کام کرنا چاہیے۔

تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بل کی حمایت کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ اس بل سے خواتین کو وراثت دینے کا حق محفوظ ہوجائے گا۔ کمیٹی نے بل کو ووٹنگ کے لئے پیش کیا جس کو مسترد کیا گیا۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر قبلہ آیاز سے جب اس حوالے سے رائے لی گئی تو انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ بل پر بحث کرنے سے پہلے اس کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیج دینا چاہیے تھا تاکہ اس پر اسلام کے مطابق روشنی ڈالی جاتی لیکن اس بل کو پڑھے بغیر ہم کوئی بحث نہیں کرسکتے۔ لیکن مذہب اسلام کے خواتین کو وراثت میں حصہ دینے کے احکامات دیتا ہے اس لئے اس میں نہ تبدیلی ہوسکتی ہے اور نہ کوئی انکار کرسکتا ہے لھذا اس میں کوئی دو رائے نہیں۔

کمیٹی میں زیادہ تر ممبران کا خیال تھا کہ وراثت ہر عورت کا حق ہے لیکن چونکہ آئین اور قانون میں پہلے سے یہ موجود ہے تو اس کے نفاذ کے لئے کوششیں کی جائے تو بہتر نتائج آسکتے ہیں نہ کہ ہم ایک اور قانون سازی میں وقت لگائیں۔

قانونی ماہر ہما بابر سے جب اس حوالے سے رائے لی گئی تو انھوں نے موقف اپنایا کہ آئین میں پہلے سے بہت سارے قوانین موجود ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ مزید قانون سازی کی ضرورت ہے کیونکہ اگر عمل درآمد نہیں ہوگا اور خواتین کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا تو پھر قانون سازی کا کوئی فائدہ نہیں ہے. ہما بابر نے مزید کہا سپریم کورٹ کا ابھی ایک فیصلہ آیا ہے جس پر بہت سارے لوگوں کو تحفظات ہیں اور وہ یہ کہ جو خواتین مرجاتی ہے ان کو وراثت میں حصہ نہیں مل سکتا۔

ہما بابر نے مزید کہا کہ پہلے تو خاندان میں خواتین کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا اور جو جو خواتین حقوق مانگنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ خاندانی دباؤ کی وجہ سے خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ کچھ خواتین ہمت کرکے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں تو عدالتی نظام میں اتنے نقائص اور سستی ہے کہ وہ خاتون زیادہ تر کیسز میں وراثت میں حصہ ملنے سے پہلے مرجاتی ہے اور اب سپریم کورٹ کا ایک اور فیصلہ جاری ہوا کہ خواتین کے مرنے کی صورت میں وہ وراثت کے حق سے محروم ہوجاتی ہے. انھوں نے موقف اپنایا کہ مسئلہ قوانین کے نہ ہونے کا نہیں بلکہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا اور ناقص عدالتی نظام خواتین کو وراثت میں حصہ نہ ملنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔