کالعدم سپہ صحابہ نے بھی پابندی ہٹانے کا مطالبہ کردیا، حکومت کو ملک گیر احتجاج کی دھمکی

کالعدم سپہ صحابہ نے بھی پابندی ہٹانے کا مطالبہ کردیا، حکومت کو ملک گیر احتجاج کی دھمکی
کالعدم سپہ صحابہ نے بھی پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کو ملک گیر احتجاج کی دھمکی دے دی ہے۔

تفصیلات کے مطابق علامہ اورنگزیب فاروقی نے حکومت سے کالعدم تنظیم سپاہ صحابہؓ پاکستان پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔

علامہ اورنگزیب فاروقی نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہماری جماعت پر سے بھی پابندی ہٹائی جائے اور فورتھ شیڈول سے لوگوں کو نکالا جائے۔

 



انہوں نے کہا کہ ہم تحریک لبیک پر سے پابندی ہٹانے کے فیصلے کو سراہتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم پر سے بھی پابندی ہٹائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے مطالبے پر کان نہ دھرے گئے تو اس کا مطلب ہے کہ سیدھی انگلی سے گھی نہیں نکلے گا تو ٹیڑھی کرنا پڑے گی۔

انہوں نے اپنے کارکنان سے سوال کیا کہ اگر آپ کو کہا جائے کہ گھروں سے نکلو تو نکلو گے؟ کہا جائے تو آؤ گے؟ بپھرنا ہو تو بپھرو گے؟ ان کے کارکنان نے ہاتھ اٹھا کر ہاں میں جواب دیا۔



خیال رہے کہ حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وفاقی وزارت داخلہ نے تحریک لبیک سے پابندی اٹھانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، اس سے پہلے حکومت پنجاب کی سمری پر وفاقی کابینہ نے ٹی ایل پی پر سے پابندی ہٹانے کی منظوری دی تھی۔

وفاقی کابینہ کے چند ارکان کے تحفظات کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز تحریک لبیک پاکستان ( ٹی ایل پی) کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے ہٹانے کی وزارت د اخلہ کی سمری منظور کی تھی۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان ہونے والا معاہدہ وزراء (ماسوائے شاہ محمود قریشی اور علی محمد) کو بھی نہیں دکھایا گیا جس سے کابینہ ارکان کی فیصلہ سازی کے انداز پر سوال اٹھتے ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سابق کابینہ سیکریٹری کا کہنا تھا کہ معاہدے کی معلومات نہ ہونے سے کابینہ کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ کابینہ رکن کا استحقاق ہے کہ وہ اس ایشو پر سوال اٹھائے یا نہیں۔

وزارت داخلہ نے ٹی ایل پی کی یقین دہانی کی نشاندہی کی تھی کہ وہ پرتشدد مظاہرے نہیں کرے گی اور اسی وجہ سے پارٹی کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست سے خارج کیا جائے گا۔

کچھ وزیروں نے اس سمری پر دستخط سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور وزیراعظم کو بتایا کہ اس معاملے میں قانونی اور سیاسی پیچیدگیاں شامل ہیں، تجویز دی گئی کہ فیصلے سے قبل دونوں پہلوئوں پر مفصل بحث کی جائے