عمران خان غیر مقبول لیکن اسٹیبلشمنٹ کیلئے آئیڈیل وزیراعظم وہی ہیں: اعزاز سید

عمران خان غیر مقبول لیکن اسٹیبلشمنٹ کیلئے آئیڈیل وزیراعظم وہی ہیں: اعزاز سید

اعزاز سید نے کہا ہے کہ اس وقت ملک میں تمام سیاسی قائدین غیر مقبول ہیں لیکن ان میں سے عمران خان ہی اسٹیبلشمنٹ کیلئے آئیڈیل ہیں کیونکہ انھیں ان جیسا کوئی اور وزیراعظم انہیں نہیں ملے گا۔


نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور خارجہ پالیسی کے بعض معاملات میں عمران خان نے دھچکا دیا تھا لیکن اس کے باوجود ہوا وہی جو اسٹیبلشمنٹ نے چاہا تھا۔


ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی تاریخ ہے کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ عمران خان کوئی آئیڈیل سیاستدان نہیں، انھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ یوٹرن لے لیتے ہیں۔


تحریک لبیک پاکستان کیساتھ معاہدے پر اعزاز سید نے انکشاف کیا کہ آرمی چیف نے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں تسلیم کر لیا ہے کہ ٹی ایل پی کیساتھ معاہدہ انہوں نے کروایا تھا کیونکہ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو خونریزی ہونے کا خدشہ تھا۔


اعزاز سید نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شامل تمام سیاسی جماعتوں ماسوائے ایک مذہبی جماعت کے سب نے ٹی ٹی پی اور ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے کی مخالفت کی۔ اس میں بلاول بھٹو کا پوائنٹ بڑا اہم تھا۔ انہوں نے جنرل فیض کی کابل سے جاری ہوئے والی تصاویر پر تنقید کی کہ ان کی وجہ سے دنیا میں تاثر گیا کہ افغانستان کی صورتحال کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔


ان کا کہنا تھا کہ میرے لئے یہ حیران کن بات تھی کہ شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں سیکیورٹی کے معاملات پر بڑی مدلل اور اچھی تقریر کی حالانکہ ان کے بارے میں یہی تاثر ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کیساتھ آپ کیسے معاہدہ کر سکتے ہیں؟ اس اہم معاملے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔


پروگرام کے دوران شریک گفتگو رضا رومی نے واضح کیا کہ حکومت کا ٹی ٹی پی کیساتھ یہ کوئی پہلا معاہدہ نہیں، اس سے پہلے اس گروپ کیساتھ ایک درجن سے زائد معاہدے ہو چکے ہیں لیکن ان کیساتھ کیا گیا ہر معاہدہ ٹوٹا، یہ تمام چیزیں ریکارڈ پر ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ یہ لوگ انڈیا کی خفیہ ایجنسی ''را'' کے ایجنٹ ہیں انڈیا ان کو سپورٹ کرتا ہے۔ اگر ان سے آج بات چیت کی جا رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ''را'' سے معاملات طے کئے جا رہے ہیں؟


رضا رومی کا کہنا تھا کہ علی وزیر کو ابھی تک جیل میں بند رکھا ہوا ہے، انہوں نے کون سے ملکی راز کسی کو بیچ دیے ہیں، وہ اندر ہیں اور ٹی ٹی پی والوں کیساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں، پالیسی سب کیلئے ایک جیسی ہونی چاہیے۔


مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن اس بار تیاری کیساتھ آئی ہوئی تھی۔ ٹی ایل پی کی بات کی گئی اور ٹی ٹی پی پر بھی اسٹیبلشمنٹ دفاعی پوزیشن میں نظر آئی۔


مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کافی عرصے سے چل رہے تھے۔ میری اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی کے 100 لوگوں کو چھوڑا گیا ہے جس کے بعد ہی عارضی طور پر فائر بندی ہوئی ہے۔ تاہم ٹی ٹی پی کے مطالبات کسی طور پر قابل قبول نہیں، وہ فاٹا کے انضمام کو بدلنے کا کہہ رہے ہیں۔