پشاور میں چالیس سالہ احمدی شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا

پشاور میں چالیس سالہ احمدی شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا
پشاور میں چالیس سالہ احمدی شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف ایک اور ہلاکت خیز کارروائی میں خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں ایک احمدی شخص کو ہدف بنا کر قتل کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق مقتول کامران احمد کی عمر چالیس برس تھی۔

پاکستان میں احمدیہ کمیونٹی کے ترجمان نے بتایا کہ کامران احمد انڈسٹریل اسٹیٹ کوہاٹ روڈ، پشاور کی ایک فیکٹری میں ملازم تھے جبکہ انہیں اسی فیکٹری کے باہر نشانہ بنایا گیا جہاں وہ کام کر رہے تھے۔ قتل کیے جانے والے احمدی کے پسماندگان میں بیوہ اور 3 کمسن بچے شامل ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ ان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی مگر انہیں مذہبی عقیدے کی بنا پر قتل کیا گیا۔

پولیس کے مطابق کامران احمد کام پر تھے کہ نامعلوم شخص نے اس پر فائرنگ کردی جس کے بعد وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔

مقامی پولیس کے اہلکار فہد خان نے ابتدائی تفتیش کے حوالے سے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کامران احمد کو صرف ان کے عقیدے کے باعث ہی ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔

فہد خان نے حملہ آور کے حوالے سے بتایا کہ اب تک کی تفتیش کے مطابق نامعلوم حملہ آور نوجوان شخص تھا۔ اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی تاہم پولیس حملہ آور کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔

احمدیہ کمیونٹی کے ترجمان کے مطابق اس سال یہ دوسرا احمدیہ قتل ہے اور پشاور میں گزشتہ 2 سالوں میں یہ 5واں قتل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قانونی کارروائی کے بعد انہیں چناب نگر میں سپرد خاک کیا جائے گا۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ مذکورہ فیکٹری ایک احمدی تاجر کی تھی جو اس ناخوشگوار واقعے سے قبل اپنی ایک فیکٹری فروخت کرچکا ہے اور پشاور میں احمدیوں کے خلاف اٹھنے والی مخالفت کی وجہ سے وہ اس فیکٹری کو فروخت کرنے کے چکر میں بھی تھا۔

احمدیہ کمیونٹی کے ترجمان نے قتل کے اس گھناؤنے فعل کی مذمت کرتے ہوئے اسے مذہبی منافرت کا عمل قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذہب کو امن و خوشحالی کو فروغ دینے کے بجائے نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور پاکستان بھر میں ختم نبوت کے مقدس نام پر اجتماعات کر کے لوگوں کو احمدیوں پر ظلم و ستم پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے دو مہینوں میں احمدیوں کے خلاف نفرت کی تحریک میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں بے گناہ احمدیوں کی جان و مال خطرے میں پڑ گیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاستی ادارے انتہا پسندوں کو احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر پھیلانے سے نہ صرف روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں بلکہ اس کے برعکس حمایت انہیں ہمت دے رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بے گناہ احمدیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔

ترجمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کامران احمد کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

پاکستان میں مقیم احمدیوں پر عقیدے کی بنیاد پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسے حملوں میں سات احمدی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایسے واقعات کے باوجود حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے احمدیہ کمیونٹی کے ارکان کو تحفظ دینے یا نفرت انگیز تقاریر کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

یہ مسلسل ظلم و ستم اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ پاکستان میں کمیونٹی کے حقوق کی سراسر نظر اندازی کی گئی ہے اور کمیونٹی کے اندر گہرے عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔