مغوی علی رضا بازیاب نہ ہو سکے، سپریم کورٹ آئی جی بلوچستان پر شدید برہم، جلد پیشرفت کا حکم

مغوی علی رضا بازیاب نہ ہو سکے، سپریم کورٹ آئی جی بلوچستان پر شدید برہم، جلد پیشرفت کا حکم
سپریم کورٹ نے مغوی علی رضا کی بازیابی سے متعلق آئی جی بلوچستان سے پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اسے 4 ہفتوں میں عدالت میں جمع کرایا جائے۔

تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کیخلاف از خود نوٹس پر چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر ڈی جی نیکٹا کو 16 نومبر کو طلب کر لیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ڈی جی نیکٹا بازیاب افراد کے بینک اکائونٹس بحال نہ کرنے سے متعلق جواب دیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الحسن نے آئی جی بلوچستان سے پوچھا کہ بتائیں مغوی علی رضا کی بازیابی کا کیا بنا؟ جس پر انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تین سال بعد کیس لیویز فورس نے پولیس کے حوالے کیا تھا۔ ہم نے اس معاملے پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دیدی ہے اور ایک لاش کے ڈی این اے کیلئے نمونے پنجاب فرانزک لیب کو بھجوائے ہیں۔

آئی جی بلوچستان کے جواب پر برہم ہوتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا آئی جی صاحب آپ قبریں کھود کر بندے تلاش کر رہے ہیں، زندہ لوگوں میں سے مغوی علی رضا کو تلاش کریں۔ لاش کا سن کر مغوی کے اہلخانہ پر کیا گزر رہی ہوگی۔

جسٹس قاضی امین نے آئی جی بلوچستان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مغوی کا تاحال بازیاب نہ ہونا پولیس کی ناکامی ہے۔

اس پر آئی جی بلوچستان نے کہا کہ مغوی کے اہلخانہ کو افغانستان سے بھی کالز آتی رہیں اور ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اس کا جلد از جلد پتا لگایا جاسکے۔

مغوی علی رضا کی بیوی نے عدالت کو بتایا کہ مجھے خاوند کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں، میں تو صرف انصاف چاہتی ہوں۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے، ان کے تحفظ کیلئے اقدامات کیے جائیں۔

بازیاب افراد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سماعت پر چار بازیاب افراد کی تنخواہیں جاری کرنے اور بینک اکائونٹس بحال کرنے کا کہا تھا لیکن نیکٹا نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے میں نام واضح نہیں لکھے گئے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں تمام تفصیل لکھی گئی ہے۔ نیکٹا کیسے حکم عدولی کر سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلائیں ڈی جی نیکٹا کو ان سے پوچھ لیتے ہیں۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چنگیز خان نجی بینک، عمران علی ریڈیو پاکستان اور عامر علی ایس این جی پی ایل کے ملازم تھے جبکہ مختار حسین نجی کاروبار کرتے تھے۔ اغوا ہونے کے بعد نیکٹا نے تمام افراد کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیے اور اس کی وجہ سے بینک اکائونٹس منجمد ہیں اور ادارے ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کر رہے۔

عدالت نے ڈی جی نیکٹا، ڈی جی ریڈیو پاکستان، جی ایم ایس این جی پی ایل اور نجی بینک کی انتظامیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بازیاب ہونے والے افراد کی تنخواہوں اور بینک اکاونٹس سے متعلق معاملے کی سماعت 16 نومبر تک ملتوی کردی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔