سلیم بخاری نے عمران خان کی حمایت پر معافی مانگ لی

سلیم بخاری نے عمران خان کی حمایت پر معافی مانگ لی
ممتاز تجزیہ کار سلیم بخاری نے گذشتہ عام انتخابات میں عمران خان کے تبدیلی کے نعرے کو سچ سمجھنے اور اس کی حمایت کرنے کو اپنا جرم قرار دیتے ہوئے معافی مانگ لی۔

24 نیوز کے پروگرام ڈی این اے میں سلیم بخاری نے کہا اسد عمر نے میڈیا کو جو دھمکیاں دی ہیں میں پوری ذمہ داری سے اقرار کر رہا ہوں کہ ہم سے عمران خان کی حمایت کا جو جرم سرزد ہوا تھا ہم اسے قبول کرتے ہوئے خود کو قصور وار قرار دیتے ہیں اور اس پر میں اور یہاں بیٹھے سب میڈیا پرسنز شرمندہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ہم جن پتھروں کے بڑے بڑے بت بنا رہے ہیں، ان کو زباں ملے گی تو میڈیا پر ہی برس پڑیں گے، جس احسان فراموشی کا مظاہرہ انہوں نے کیا ہے انہیں اس کی بھاری قیمت دینی پڑے گی۔

پروگرام میں تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے جو کلچر 2018 میں اور اس کے بعد پارلیمنٹ میں متعارف کرایا اس کی جھلک اسد عمر، غلام سرور خان، زلفی بخاری اور حکومت کے اکثر وزراء کے بیانات کی تلخی سے صاف ظاہر ہوتی ہے۔ افتخار احمد نے دیگر تجزیہ کاروں کے سامنے سوال رکھا کہ عدم برداشت، گالم گلاچ اور طعنہ زنی کا جو کلچر سیاست میں موجود ہے اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ سلیم بخاری نے کہا یہ راستہ تباہی کا راستہ ہے، اسد عمر کا اپوزیشن کو دھمکی دینا کہ اگر وہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرے گی تو تحریک انصاف کے کارکن آپ پر تشدد کریں گے، اصل میں اپوزیشن کو اشتعال دلانے اور ملک کو انتشار کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ 2018 میں جو لوگ عمران خان کے کنٹینر کے گرد جمع تھے وہ پیپلز پارٹی کے جیالوں یا جے یو آئی کے رضا کوروں کا سامنا کر سکیں۔

اسد عمر اگر کسی غلط فہمی کا شکار ہیں تو اسے دور کر کے ایسی اشتعال انگیز گفتگو سے گریز کریں، افتخار احمد نے کہا کہ زلفی بخاری نے جو اشارے دئیے ہیں ان سے حکومت کی مایوسی اور بوکھلاہٹ صاف ظاہر ہے، زلفی بخاری نے کہا کہ وہ کیا سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو باہر رکھ کر وہ کیا کر لیں گے، کیا ہم نیا وزیر اعظم قبول کر لیں گے۔ سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ حکومت کمزور ہو چکی ہے ان کے اتحادی ق لیگ اور ایم کیو ایم بھی ان سے شدید ناراض ہیں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اتحادیوں کی جانب سے حمایت حاصل نہ ہوئی تو حکومت کی کشتی مرکز اور پنجاب میں ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

جاوید اقبال نے کہا کہ حکومت میں جتنی مایوسی اور بے بسی اب دکھائی دے رہی ہے وہ ساڑھے تین برس میں کبھی نظر نہیں آئی۔ وزیر اعظم کور کمیٹی کے اجلاس میں کہتے ہیں، آخری اوور میں اعصاب پر قابو رکھنا ہے اور گھبرانا نہیں ایسا لگتا ہے کہ ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے۔

بشکریہ 24 نیوز