سابق جج رانا شمیم کے حلف نامہ سے متعلق توہین عدالت کیس، فریقین کو شوکاز نوٹسز جاری

سابق جج رانا شمیم کے حلف نامہ سے متعلق توہین عدالت کیس، فریقین کو شوکاز نوٹسز جاری
سابق جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے حلف نامے سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی۔ سماعت کے دوران میر شکیل الرحمان ، ا نصار عباسی، اٹارنی جنرل خالد جاوید بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ جبکہ سابق جج رانا شمیم عدالتی حکم کے باوجود عدالت میں نہیں آئے۔ رانا شمیم کے بیٹے نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ والد گذشتہ رات ہی اسلام آباد پہنچے ہیں ، ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

رانا شمیم کے صاحبزادے نے کمرہ عدالت میں ویڈیو چلانے کی اجازت طلب کی۔ احمد حسن رانا نے کہا کہ ہم ایک ویڈیو عدالت میں چلانا چاہتے ہیں، لیپ ٹاپ لا سکتے ہیں؟ جس پر عدالتی عملے نے ان سے کہا کہ جج صاحب کی اجازت سے لیپ ٹاپ لا سکتے ہیں ۔ دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے ہر ایک جج پر مجھے پورا بھروسہ اور اعتماد ہے۔

اگر مجھے اپنے ججز پر اعتماد نہ ہوتا تو یہ توہین عدالت کی کارروائی نہ کرتا، یہ عدالت آزاد اور آئینی ہے۔ ہائیکورٹ کو سائلین کے لیے قابل احتساب سمجھتا ہوں۔ عوام کا اعتماد عدالت سے اُٹھ گیا تو بے یقینی پیدا ہو جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے کہا کہ ججز کا احتساب ہونا چاہیے اور ان پر تنقید بھی کی جا سکتی ہے۔ ججز پر تنقید ضرور کریں لیکن عوام کا اعتماد نہ اُٹھائیں۔

اگر عوام کا عدلیہ پر اعتماد نہیں ہو گا تو انتشار پیدا ہو گا اور آپ نے یہ کیا کیا ہے؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ میرے خلاف کئی مرتبہ سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔ عدالت نے کہا کہ میر شکیل الرحمان صاحب آپ سامنے روسٹرم پر آئیں۔ چیف جسٹس نے میر شکیل الرحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک لیڈنگ میڈیا آرگنائزیشن کے مالک ہیں۔

اگر کوئی اپنا بیان حلفی نوٹرائز کرواتا ہے تو اس کو اخبار کی لیڈ بنا دیں گے؟ کیا عدالت میں کوئی شخص میرے ججز پر الزام عائد کر سکتا ہے کہ وہ کسی سے ہدایات لیتے ہیں؟ چیف جسٹس نے عدالت میں موجود میر شکیل الرحمان کو اسٹوری کی ہیڈ لائن پڑھنے کا کہا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میری عینک نہیں ہے ۔ دوران سماعت عدالت نے انصار عباسی سے کہا کہ آپ اپنی اخبار کی ہیڈ لائن پڑھیں جس کے بعد انصار عباسی نے عدالت میں اپنی خبر کی ہیڈ لائن پڑھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے رانا شمیم سے پوچھا کہ انہوں نے حلف نامہ باہر کیوں نوٹرائز کیا؟ آپ انوسٹی گیٹو صحافی ہیں، میں آپ کا احترام کرتا ہوں، کیا آپ نے خود تحقیقات کیں؟ یہ حلف نامہ اس عدالت کے کسی بھی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے۔احتساب عدالت نے 6 جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائی تھی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 16جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی۔

میں اور جسٹس عامر فاروق اس وقت چھٹیوں پر ملک سے باہر تھے،جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی تھی۔ دونوں ججز ملک بھر کے قابل احترام ججز ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہائیکورٹ سے پوچھ لیتے کہ کونسا بینچ اس وقت کیس کی سماعت کر رہا تھا،عدالت نے کہا کہ آپ نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ کیا کیس الیکشن سے پہلے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی درخواست کی تھی۔
خواجہ حارث پیشہ ور وکیل ہیں انہیں معلوم تھا کہ یہ طریقہ کار نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی وکیل سے پوچھ لیں، ایک دن اپیل دائر ہو اور سزا معطل ہو جائے یہ نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک سال کیلئے ڈویژن بینچ تھے جنہوں نے اس ہائیکورٹ کو چلایا،جج کے نام کی خالی جگہ چھوڑ کر آپ نے ساری ہائیکورٹ پر الزام عائد کر دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس ہائیکورٹ سے لوگوں کا اعتماد اٹھانے کے لیے سازشیں شروع ہو گئیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے سامنے کوئی چیف جسٹس ایسی بات کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھ کر دے دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی رپورٹ نے ہائیکورٹ پر کئی سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس ایک چیف جسٹس کے سامنے ایسی بات کرے اور وہ 3 سال خاموش رہے۔ اچانک سے ایک پراسرار حلف نامہ آ جائے اور ایک بڑے اخبار میں شائع ہو جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فریڈم اور پریس اہم ہے، سوشل میڈیا اور پریس میں فرق ہے۔

جس پر انصار عباسی نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت مجھے دو منٹ بات کرنے کی اجازت دے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اب کیا کہیں گے، جو نقصان کرنا تھا وہ آپ کر چکے۔ انصار عباسی نے کہا کہ میں نے کسی جج کا نام نہیں لیا۔ میرے خلاف آپ کارروائی عمل میں لائیں مگر الزمات کی انکوائری کروائیں۔

دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی نے کہا کہ آپ میرے خلاف کارروائی کریں، میں نے یہ اسٹوری کی ہے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھائی ہیں، رانا شمیم سے تصدیق کرکے اسٹوری کی گئی، میری اسٹوری میں جج صاحب یا عدالت کا نام نہیں تھا ، میرا کام یہ تصدیق کرنا تھا کہ حلف نامہ اصل ہے یا نہیں ، میں نے جج صاحب سے اس کی تصدیق کی وہ اپنے اس بیان پر قائم ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایڈیٹر اور ایڈیٹر انچیف کو بھی نوٹس کریں گے، آپ نے جو کچھ کہنا ہے جواب میں لکھ کر بتائیں۔

عدالت نے عامر غوری اور میر شکیل الرحمان سے سوال کیا کہ آپ کی بھی ذ مہ داری تھی ایسی اسٹوری کیسے چھپی؟مجھے بتائیں کہ آپ کی کوئی ایڈیٹوریل پالیسی نہیں ہے ؟ چیف جسٹس نے عدالت میں سوال کیا کہ کیا رانا شمیم عدالت میں پیش ہوئے ؟

جس پر وکیل نے کہا کہ رانا شمیم کے بھائی کا انتقال ہوا ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رانا شمیم کے بھائی کا چھ نومبر کو انتقال ہوا۔ وہ امریکہ میں ایک کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے گئے تھے، انہیں پیش ہونے کے لیے وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اہم ترین عہدہ رکھنے والا شخص 3 سال بعد ایسا بیان حلفی کیسے دے سکتا ہے؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ افواہیں ہیں کہ وہ بیان حلفی جعلی ہے۔ اگر وہ جعلی ہوتا ہے تو پھر شائع کرنے والے کے خلاف کیا کارروائی ہو گی؟ چیف جسٹس نے انصار عباسی سے سوال کیا کہ جس بنچ نے سماعت کی وہ کس نے بنوایا تھا ؟ میں آپ کو لکھواتا ہوں کہ اس کیس کی سماعتیں کتنی ہوئیں، عدالت نے ان اپیلوں پر روزانہ کی بنیاد پر بھی سماعت کی، اسکی بھی کوئی مثال نہیں ملتی، انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ کا کوئی جج کسی کو اپنے گھر یا چیمبر میں آنے کی اجازت دے تو میں ذمہ دار ہوں گا، عدالت نے کہا کہ جس بیان حلفی پر ابہام ہے جو کہیں کسی جوڈیشل فارم پر پیش ہوا تحقیقات کیے بنا اسٹوری کردی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں اس کیس کو کسی دوسری چیز سے مکس نہیں ہونے دوں گا۔ چیف جٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ تاثر یہ ہے کہ یہ حلف نامہ غلط اور جھوٹا ہے، میں سب کو شوکاز نوٹس جاری کرنے جا رہا ہوں۔ جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے 7 روز میں تحریری طور پر جواب طلب کر لیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے میرشکیل الرحمان، انصار عباسی اور عامر غوری کو شوکاز نوٹسز جاری کردیئے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے رانا شمیم کو بھی نوٹس جاری کیا اور کیس کی مزید سماعت کو 26 نومبر تک دس دن کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ دس دن بعد تمام فریقین ذاتی حیثیت میں دوبارہ عدالت پیش ہوں۔