رانا شمیم کے بیان حلفی پر خبر، سٹوری کی ٹائمنگ یہ کیوں رکھی؟ انصار عباسی نے بتا دیا

رانا شمیم کے بیان حلفی پر خبر، سٹوری کی ٹائمنگ یہ کیوں رکھی؟ انصار عباسی نے بتا دیا
انصار عباسی نے کہا ہے کہ میں نے جرنلزم ہمیشہ ایمانداری سے کی۔ مجھے کبھی فرق نہیں پڑتا کہ میری خبروں سے کون خوش ہوتا ہے یا ناراض لیکن آج حکومتی وزرا میری خبروں کا حوالہ دے کر ٹیلی وژن چینلز پر بیٹھ کر جھوٹ بول رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی پارٹیوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں لیکن بطور صحافی ہمارے پاس جو بھی خبر آتی ہے ہم اسے شائع کر دیتے ہیں، اس میں ٹائمنگ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ماضی میں جب میں نے ثاقب نثار کے حق میں خبر بریک کی تو ن لیگ والے نارض تھے اور پی ٹی آئی والے خوش تھے لیکن آج گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم ہے بیان حلفی والی خبر پر دونوں جماعتوں کا ری ایکشن مختلف ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے ثاقب نثار صاحب سے جب اس خبر پر ردعمل لیا تو انہوں نے گلہ کیا کہ آپ سے اتنا تعلق رہا لیکن ماضی میں بھی میری جانب سے کچھ ایسی سٹوریز شائع ہوتی رہیں جن کی وجہ سے انھیں مخلتف تنازعات کا سامنا رہا۔

خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل انصار عباسی نے ایک سٹوری رپورٹ کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ نوازشریف اپنے دور حکومت میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو ہٹانا چاہتے تھے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کرنے کے لئے ریفرنس تیار کر لیا گیا تھا۔ لیکن بعدازاں جب صدر ممنون حسین ،وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے مخالفت کی تو ریفرنس ختم کر دیا گیا۔ جسٹس ثاقب نثار کو بھی اپنے خلاف کچھ کھچڑی پکنے کی سُن گن مل گئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) میں چند شخصیات کو ہی اس کا علم تھا۔

انصار عباسی نے اپنے یوٹیوب چینل پر نشر ویڈیو میں اسی خبر کا حوالہ دیا جس سے مسلم لیگ ن کی قیادت ناراض ہو گئی تھی۔ اس خبر کے مطابق جب اس وقت چیف جسٹس ثاقب نثار نے نااہل قرار دے کر نوازشریف کی حکومت ختم کی اور انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا تو معزول وزیراعظم نے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا لیکن ان کے جانشین شاہد خاقان عباسی نے انہیں اپنی کوششوں سے باز رہنے پر قائل کیا۔



اس وقت کے صدر ممنون حسین بھی ریفرنس کی کاپی دیکھ کر چونک گئے۔ رابطہ کرنے پر سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بھی ایسے اقدامات کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں کچھ عناصر نے گمراہ کیا۔ جن کی انہوں نے نشاندہی سے گریز کیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اپنے تحفظات سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو آگاہ کیا تو انہوں نے فیصلہ تبدیل کر دیا۔ اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ یہ 2017ء کے اواخر یا 2018ء کے شروع کی بات ہے جب شاہد خاقان عباسی نے اٹارنی جنرل کو اپنے دفتر میں طلب کیا۔

شاہد خاقان نے انہیں ریفرنس کی کاپی دکھائی اور اسے پڑھنے کے لئے کہا لیکن اٹارنی جنرل نے اسے پڑھنے سے گریز کیا اور انہیں ریفرنس آگے نہ بڑھانے کے لئے کہا۔ اشتر اوصاف کے مطابق ان کا مؤقف جاننے کے بعد شاہد خاقان عباسی نے ان سے اتفاق کیا۔

اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ایسا کوئی ریفرنس قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ سپریم جوڈیشیل کونسل کے سربراہ بھی خود چیف جسٹس پاکستان ہوتے ہیں۔ قانونی رُکاوٹوں کے علاوہ انہوں نے وزیراعظم کویہ بھی بتایا کہ ایسے کسی صدارتی ریفرنس کا سیاسی اور قانونی حلقوں میں بھی خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔

اس سے حکومت اور ن لیگ دونوں کو ہی پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اشتر اوصاف نے وزیراعظم سے یہ بھی کہا جس کسی نے ریفرنس تیار کیا، اسے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کو گواہوں کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر عائد کردہ الزامات ثابت کرنے ہوں گے، کیونکہ استغاثہ کی قیادت اٹارنی جنرل کو کرنا ہوگی۔

اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ان کے مؤقف سے اتفاق کیا، بعدازاں اس ریفرنس کو کبھی آگے نہیں بڑھایا گیا اور ختم کر دیا گیا۔ اسے سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

انصار عباسی نے اپنی خبر میں کہا تھا کہ شاہد خاقان عباسی خود ریفرنس کے مسودے کی کاپی لے کر صدر ممنون حسین کے پاس گئے اور صدر حیران تھے کہ ریفرنس کے معاملے میں انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

خبر کے مطابق نوازشریف کو ایک وزیر سمیت کچھ لیگیوں نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف ریفرنس لانے کا مشورہ دیا تھا اور اس سلسلے میں سپریم جوڈیشیل کونسل میں کوئی ایک اہم شخصیت چیف جسٹس کی برطرفی میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے تب نوازشریف کو ریفرنس دائر نہ کرنے پر قائل کر لیا۔ نوازشریف نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور مبینہ ریفرنس کوئی رسمی دستاویز بننے کے بجائے ردّی کی ٹوکری کی نذر ہو گیا۔