فلیٹس والد نے تحفے میں دیے، اس میں مریم نواز کا کیا قصور؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

فلیٹس والد نے تحفے میں دیے، اس میں مریم نواز کا کیا قصور؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ اگر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی دولت سے خریدے گئے تھے تو اس میں مریم نواز شریف کا کیا قصور ہے؟ کیونکہ انھیں تو یہ فلیٹ اپنے والد سے تحفے میں ملے تھے۔

یہ ریمارکس اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے مریم نواز شریف کی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران کہے۔ انہوں نے ایک سے زائد مرتبہ نیب پراسیکیوٹر سے مخاطب ہو کر یہ بات کہی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس عامر فاروق نیب پراسیکیو ٹر سے بار بار کوئی ایسا ثبوت عدالت عالیہ کے سامنے پیش کرنے کا کہتے رہے جس سے مریم نواز شریف کی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت ثابت ہو سکے۔

تاہم نیب پراسیکیوٹر نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے مزید ثبوت پیش کرنے کیلئے مہلت مانگ لی۔ اس سے قبل کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے 6 ہزار صفحات پر مشتمل ثبوتوں سے متعلق دستاویزات عدالت کو پیش کیں۔

عدالت عالیہ نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں استغاثہ کو پہلے اپنا کیس ثابت کرنا ہوتا ہے، اس کے بعد ملزم کو صفائی کا موقع ملتا ہے۔ نیب کو ایسی شہادتیں اور ثبوت پیش کرنا ہونگے جو بغیر کسی شکوک و شبہات کے ثابت کریں کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس مریم نواز کی ملکیت ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی انتظامیہ کی جانب سے جو ہمیں خط موصول ہوا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ مریم نواز ہی مذکورہ جائیداد کی مالکن ہیں۔ نیب قوانین کے تحت بیرون ملک سے آنیوالی کوئی بھی دستاویزات ثبوت کے ذمرے میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نیب قوانین میں بیرون ملک سے آنے والی دستاویزات کو ثبوت کا حصہ بنا لیا گیا ہے لیکن یہ ثابت بھی کرنا ضروری ہے کہ یہ کس حد تک درست ہیں۔ جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ بیرون ملک سے موصول ہونے والی دستاویز کی بھی پاکستان کے قانون شہادت کے اندر رہتے ہوئے پرکھ کی جائے گا۔

نیب پراسیکیوٹر نے بعض پاکستانی اداروں اور شریف خاندان کے درمیان خط وکتابت کا بھی حوالہ دیا جس میں مریم نواز نے مبینہ طور پر ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت قبول کی۔ اس دلیل کے جواب میں جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ایسی خط وکتابت کو بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا، ایسا کرنے کی صورت میں خطوط لکھنے والوں کو گواہ کے طور پر عدالت میں طلب کرکے حقائق کی تصدیق کی جانی ضروری ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ایک موقع پر کہا کہ آف شور کمپنیاں رکھنا غیر قانونی نہیں اور ان کی ملکیت کمپنیز کے بیئرر سرٹیفکیٹ ہوتے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ دو کمپنیوں کے بیئرر سرٹیفکیٹس کس کے پاس ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ جائیدادیں 1980ء میں حاصل کی گئیں، اس وقت تو شاید مریم نواز پیدا بھی نہ ہوئی ہوں۔

اس موقع پر مریم نواز بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں، انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھے لیگی رہنما محمد زبیر سے کچھ کہا تو انہوں نے وکیل عرفان قادر کو پیغام دیا جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ 1980ء میں مریم نواز کی عمر 7 سال تھی۔