ایسا امریکی شہر جہاں حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے

ایسا امریکی شہر جہاں حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے
امریکی ریاست مشی گن کے ہیمٹریمک نامی شہر کا میئر ناصرف مسلم ہے بلکہ اس کی کونسل کے تمام اراکین بھی مسلمان ہیں۔ یہاں آپ کو پانچ وقت مساجد سے اذان کی آوازیں سنائی دیں گی۔

سٹی کونسل میں دو بنگالی نژاد امریکی، تین یمنی نژاد امریکی اور ایک نومسلم پولش نژاد امریکی شامل ہیں۔ 68 فیصد ووٹ حاصل کر کے عامر غالب امریکہ میں پہلے یمنی نژاد امریکی میئر ہوں گے۔



ہیمٹریمک شہر تقریباً دو مربع میل کے رقبے پر قائم ہے اور یہاں لگ بھگ دنیا بھر کی 30 سے زائد زبانیں بولنے والے افراد بستے ہیں۔ اس شہر کی آبادی 28 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ امریکا کا پہلا شہر ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہے۔

اس شہر میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی رہائش پذیر ہیں تاہم اس کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔ اسلام کے آثار اس شہر کے گلی کوچوں میں نقش ہیں۔

تاہم کارخانوں کے زوال کے بعد پولش افراد نے نقل مکانی شروع کردی۔ اس کی وجہ سے یہ علاقہ بہت غریب ہو گیا۔ لیکن پھر یہاں چیزیں سستی ہونے کی وجہ سے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطنوں نے اسے آباد کرنا شروع کردیا۔



گذشتہ تیس برسوں میں مشرق وسطیٰ، ایشیا اور بنگلا دیش سے آنے والوں نے اسے اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس شہر کی تقریباً 42 فیصد آبادی امریکا سے باہر پیدا ہوئی جبکہ نصف سے زیادہ آبادی باعمل مسلمان ہیں۔

جب یہ شہر مسلم اکثریتی حکومت والا امریکا کا پہلا شہر بنا تو دنیا کے میڈیا کی توجہ اس کی جانب مبذول ہو گئی۔ میڈیا رپورٹس میں اسے کشیدگی والے علاقے کے طور پر پیش کیا گيا۔ یہاں تک کہ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جانے لگیں کہ مسلمانوں کے کنٹرول والی سٹی کونسل کہیں شرعی قانون نافذ نہ کر دے۔

خیال رہے کہ پیو ریسرچ سینٹر کے اعدادوشمار کے مطابق 2020ء میں امریکا میں تقریباً 38 لاکھ مسلمان تھے، جو کہ کل آبادی کا تقریباً 1.1 فیصد تھا۔ 2040ء تک مسلمانوں کا امریکہ میں مسیحی برادری کے بعد دوسرا بڑا مذہبی گروہ بننے کا امکان ہے۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے باوجود، امریکہ میں انھیں اکثر تعصبات کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔