نواز شریف، مریم نواز کے ٹرائل سے متعلق وائرل آڈیو میری نہیں ہے، جسٹس (ر) ثاقب نثار

نواز شریف، مریم نواز کے ٹرائل سے متعلق وائرل آڈیو میری نہیں ہے، جسٹس (ر) ثاقب نثار
سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے ٹرائل سے متعلق متنازع آڈیو کلپ کی تردید کردی۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آڈیو کلپ ’جعلی‘ ہے اور میں نے آڈیو کال میں موجود شخص سے کبھی بات نہیں کی۔

واضح رہے کہ چند ہفتوں بعد ہی یہ سابق چیف جسٹس کی یہ دوسری تردید ہے۔ آڈیو کلپ کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

آڈیو کلپ میں مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس کو سنا جا سکتاہے کہ ’مجھے اس کے بارے میں تھوڑا دو ٹوک ہونے دو، بدقسمتی سے یہاں یہ ادارے ہیں جو حکم دیتے ہیں، اس کیس میں ہمیں میاں صاحب ( نواز شریف) کو سزا دینی پڑے گی، (مجھے) کہا گیا ہے کہ ہمیں عمران صاحب (عمران خان) کو (اقتدار) میں لانا ہے‘۔

انہوں نے مبینہ طور پر مزید کہا کہ ’سزا تو دینی ہی پڑے گی‘۔

لائن کے دوسرے سرے پر موجود آدمی کہتا ہے کہ ’نواز کی بیٹی مریم نواز سزا کی مستحق نہیں ہے‘، تو مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس سے کہتے ہیں کہ ’آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں‘۔

’میں نے اپنے دوستوں سے بات کی کہ اس بارے میں کچھ کیا جائے لیکن وہ نہیں مانے، عدلیہ کی آزادی نہیں رہے گی، اس لیے رہنے دیں‘۔

https://twitter.com/FactFocusFF/status/1462470446507507716

آڈیوکلپ سے متعلق مذکورہ انکشاف فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ نے کیا، اس آڈیو کلپ کی جانچ امریکا کی ایک معروف فرم نے کی جو ملٹی میڈیا فرانزک میں مہارت رکھتی ہے۔

فیکٹ فوکس کے مطابق ’گرریٹ ڈیسکوری کے پاس ماہرین کی ایک ٹیم ہے اور ان کے پاس ثبوتوں کا تجزیہ کرنے اور انہیں بطور ثبوت امریکی عدالتوں کے سامنے گواہی دینے کا طویل تجربہ ہے۔

فیکٹ فوکس کے مطابق فرم کی تجزیاتی رپورٹ آڈیو کلپ کی تصدیق کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ’اس آڈیو میں کسی بھی قسم کی ترمیم نہیں کی گئی ہے‘۔

فیکٹ فوکس رپورٹ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے کبھی بھی احتساب عدالت کے کسی جج سے نواز شریف یا مریم نواز کے خلاف فیصلہ سنانے کا حکم دینے کے لیے رابطہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں ایسا کیوں کروں گا؟، مجھے نواز شریف سے کوئی رنجش نہیں ہے‘۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان آرمی یا انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) سے کسی نے بھی ان سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کیس کے حوالے سے دباؤ ڈالا۔

خیال رہے کہ 4 دسمبر 2018 کو العزیزیہ اسٹیل ملز کرپشن ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹس سے متعلق دوسرے ریفرنس میں بری کردیا گیا تھا۔

العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایوین فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آفشور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور اس وقت کے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔