کیا آپ جانتے ہیں پیٹرول پمپ فی لیٹر پر شہریوں سے کتنا منافع لیتے ہیں؟

کیا آپ جانتے ہیں پیٹرول پمپ فی لیٹر پر شہریوں سے کتنا منافع لیتے ہیں؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ پمپس مالکان پیٹرول یا ڈیزل ڈلوانے پر آپ سے فی لیٹر پر کتنا منافع لیتے ہیں؟ آئیے آپ کو اس بارے میں بتاتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق پیٹرول پمپ مالکان فی لیٹر ڈیزل ڈلوانے پر تین روپے 30 پیسے جبکہ اسی مقدار کے پیٹرول پر 3 روپے اکاونے پیسے منافع عام شہری سے وصول کرتے ہیں۔

فی لیٹر پیٹرول پر پمپس کا منافع 2.75 فیصد بتنا ہے لیکن پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کا مطالبہ ہے کہ اسے بڑھا کر 6 فیصد تک کر دیا جائے۔ حکومت اگر کسی دبائو میں آ کر ان کا یہ مطالبہ مان لیتی ہے تو پیٹرول پمپس مالکان کا منافع تقریباً 9 روپے فی لیٹر ہو جائے گا۔

اس کے علاوہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں بھی ڈیزل اور پیٹرول پر الگ الگ 2 روپے ستانوے پیسے فی لیٹر منافع لیتی ہیں، اگر ڈیلرز مارجن بڑھا تو اس کے ساتھ ساتھ ان کا منافع بھی بڑھے گا۔

تاہم وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے دوٹوک موقف اختیار کرے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پیٹرول پمپ مالکان کے مطالبات ناجائز ہیں، حکومت انھیں کسی صورت تسلیم نہیں کرے گی۔

ملک بھر میں پیٹرول پمپس کی بندش پر جاری بیان میں حماد اظہر نے کہا کہ ہڑتال کی آڑ میں کچھ گروپ قیمتوں میں 9 روپے کا اضافہ کروانا چاہتے ہیں۔ ہم صرف چند کمپنیوں کا افراد کو نوازنے کیلئے عوام پر یہ ظلم نہیں کر سکتے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ عوام کو پریشان کرنا کسی صورت مناسب نہیں ہے، ہم پیٹرول پمپس ڈیلرز ایسوسی ایشنز کے جائز مطالبات تو تسلیم کر سکتے ہیں لیکن ناجائز مطالبات کو کسی صورت تسلیم نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ مارجن میں اضافے کی سمری پہلے ہی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے روبرو پیش کی جا چکی ہے، امید ہے کہ اس معاملے پر آئندہ اجلاس میں فیصلہ ہو جائے گا لیکن مطالبات صرف جائز ہی تسلیم ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو پیٹرول پمپس مالکان کی مشکلات کا بھی احساس ہے مگر انھیں بھی چاہیے کہ وہ عوام کو پریشان کرنے کی بجائے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور ہڑتال کی کال کو واپس لیں۔

خیال رہے کہ آج ملک بھر میں پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن نے مطالبات نہ ماننے کیخلاف ملک بھر میں ہڑتال کرتے ہوئے پیٹرول پمپوں کو بند کر دیا ہے۔ کراچی سے کشمیر تک پی ایس او اور شیل کے سوائے تمام پیٹرول پمپس بند ہیں جس کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔