علی وزیر کی درخواست ضمانت ایک سے دوسرے بنچ کے سامنے پیش، سماعت کا عمل ہی شروع نہ ہو سکا

علی وزیر کی درخواست ضمانت ایک سے دوسرے بنچ کے سامنے پیش، سماعت کا عمل ہی شروع نہ ہو سکا
اسد علی طور نے کہا ہے کہ رکن قومی اسمبلی علی وزیر کا کیس سپریم کورٹ میں ساڑھے چھ ماہ بعد ارجنٹ کی درخواست دینے پر 26 نومبر کو مقرر کیا گیا، اس دن ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے درخواست دی کہ اس پر التوا دیدیا جائے، اس پر معزز جج جسٹس سردار طارق مسعود نے 29 نومبر تک کا التوا دے کر انھیں پیش ہونے کا کہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن اسی دن خبر آئی کہ یہ کیس جو سردار طارق مسعود، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس امین الدین خان کے بنچ کے سامنے لگا ہوا تھا، وہاں سے ہٹا کر اب اسے جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بنچ کے سامنے لگا دیا گیا ہے اور وہ 29 نومبر بروز پیر کے روز سماعت کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ تاہم آج جب صبح کیس کور کرنے کیلئے سپریم کورٹ پہنچے تو پتا چلا کہ جسٹس سجاد علی شاہ آج بنچ میں دستیاب نہیں ہیں، اس لئے کیس علی وزیر کی ضمانت کا کیس ڈی لسٹ کر دیا گیا ہے۔



اسد علی طور نے بتایا کہ بعد ازاں یہ کیس جسٹس سردار طارق مسعود کے سامنے دوبارہ آیا انہوں نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس ہم ہی سنیں گے، اسے رجسٹرار آفس کی غلطی سے دوسرے بنچ کے سامنے لگا دیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران معزز جج نے پراسیکوٹر جنرل سندھ سے پوچھا کہ آپ کیوں پیش نہیں ہوئے؟ تو انہوں نے کہا کہ عدالت جب بھی طلب کرے گی تو ہم پیش ہونگے۔ اس پر معزز جج نے بظاہر علی وزیر کے وکلا اور رکن اسمبلی محسن داروڑ کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے تو شور مچایا ہوا ہے کہ التوا مل گیا ہے۔ اس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت مورخہ 30 نومبر تک ملتوی کردی۔