'سعودی عرب نے پاکستان کو 3 بلین ڈالر چار فیصد سود پر فراہم کئے'

'سعودی عرب نے پاکستان کو 3 بلین ڈالر چار فیصد سود پر فراہم کئے'
ماہر معاشیات شاہد محمود نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ماضی کے تجربے کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو کڑی شرائط پر قرضہ فراہم کیا۔ وہ کسی وقت بھی اپنی رقم واپس لے سکتے ہیں۔ اسلامی برادر نے ہمیں یہ 3 بلین ڈالر چار فیصد سود پر فراہم کئے۔ ہم آئی ایم ایف کو بڑی گالیاں دیتے ہیں لیکن بین الاقوامی مالیاتی ادارہ جو سود لیتا ہے وہ اس سے بہت کم ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے شاہد محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ آپ بہت دیر اپنی گروتھ امپورٹس کے بغیر نہیں چلا سکتے۔ آپ کو بیجنگ، واشنگٹن اور ریاض میں سے کہیں نہ کہیں بھاگنا ہی پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ماضی کے تجربے کو دیکھتے اتنی سخت شرائط رکھ دی ہیں۔ عمران خان کی حکومت آتے ہی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ ملک میں 20 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ حالانکہ وہ سرمایہ کاری نہیں بلکہ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط تھے۔ ان 20 بلین ڈالر میں سے ایک ڈالر بھی نہیں آیا۔

پروگرام میں شریک مطیع اللہ جان نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ تقریباً 11 ماہ سے جیل میں ہیں، انھیں پشاور سے گرفتار کرکے سندھ پولیس کے حوالے کیا گیا تھا۔ ان کی ضمانت کی درخواست تقریباً 5 ماہ سے سپریم کورٹ میں پڑی ہوئی تھی جو پہلے سندھ ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت رہی۔ وہاں تو اس کا فیصلہ بھی 3 ماہ تک محفوظ رکھا گیا۔ اس کے بعد عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔

مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ علی وزیر نے جو تقریر کی ایسی تقاریر پہلے بھی ہوتی رہیں، جن میں فوج، اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں کے کردار پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ زیادہ سنگین معاملات تو وہ ہیں جن میں الزامات لگائے جاتے ہیں، علی وزیر صاحب نے تو صرف بات کی ہے۔

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 کی ویڈیو معاملے کی نیوز دینے والے نیو نیوز کے صحافی ابراہیم لکی کا پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھے ذرائع سے یہ مواد حاصل ہوا تو میں نے من وعن اسے بریک کر دیا لیکن اس کے آتے ہی سیاسی حلقوں میں طوفان برپا ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے حلقے مجھ سے ناراض ہو گئے اور دبائو کیلئے مجھے مختلف ذرائع سے فون کالز آنا شروع ہوگئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں حیران ہوں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت نے کوئی بیان جاری نہیں کیا کہ اگر ہمارے کارکن اس میں ملوث ہوئے تو ان کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔