20 نومبر کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی یا نہیں، اس پر سوالیہ نشان ہے: رانا ثنااللہ

20 نومبر کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی یا نہیں، اس پر سوالیہ نشان ہے: رانا ثنااللہ
پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ 20 نومبر کے بعد حالات تبدیل ہوئے یا نہیں، اس پر تاحال سوالیہ نشان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مختلف آرا ہیں لیکن اگر حالات تبدیل ہوئے ہیں تو اس کا بھی آنے والے دنوں میں پتہ چل جائے گا۔

جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ سے بات کرتے ہوئے پنجاب کے سابق وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کسی قیمت پر بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی ترجمان آ کر کہتے ہیں نا کہ یہ ہمارا دوٹوک فیصلہ ہے کہ الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے ہی ہوں گے تو ہمارا بھی یہ اٹل فیصلہ ہے کہ ہم EVM کے ذریعے انتخابات نہیں ہونے دیں گے۔

اس سوال پر کہ حکومت تو ہر حال میں اپنا مؤقف منواتی چلی جا رہی ہے، پارلیمنٹ کے اندر آپ نے جو احتجاج کیا، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ تعداد بھی حکومت کے پاس زیادہ ہے اور وہ ہر بار اپنی من پسند قانون سازی میں کامیاب ہو جاتی ہے، اب بھی EVM کے معاملے پر آپ کے احتجاج سے کوئی اثر نہ ہوا اور حکومت نے قانون سازی کر لی، اپوزیشن کچھ نہیں کر پائی، رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ قانون سازی کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کام ہو بھی گیا ہے۔ اگر حکومت نے زور زبردستی سے یہ قانون سازی کر لی ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حکومت اس پر عملدرآمد بھی کر لے گی اور اپوزیشن کچھ نہیں کر پائے گی۔ ہمیں نظر آ گیا ہے کہ یہ حکومت سننے کے لئے تیار نہیں اور اگر ہمیں تحریکِ لبیک پاکستان کی طرح کے احتجاج پر مجبور کیا گیا جو کہ لگتا ہے کہ واحد زبان ہے جس میں کی گئی بات یہ حکومت سمجھتی ہے تو ہم وہ بھی کرنے کے لئے تیار ہیں۔

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ یہ طریقہ کار کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے، اس سے نہ تو ملک کا فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی سیاست اور جمہوریت کسی بہتر سمت میں جاتی ہیں۔ رانا ثنااللہ کا جواب تھا کہ ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اب تک کوشش کرتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ یہ حکومت طریقے سے بات سن لے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں رہ جائے گا کہ لاتوں کے بھوتوں سے باتیں کرنا بند کر دیں اور ان سے اسی زبان میں بات کریں جو وہ سمجھتے ہیں۔

اس موقع پر ان سے سوال ہوا کہ اس شدید احتجاج اور پارلیمانی سیاست میں بالکل خاموشی سے بیٹھنے کے درمیان بھی بہت سے راستے ہیں، مثال کے طور پر آپ حکومت کے اتحادیوں سے بات کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن آپ نہیں کرتے۔ سینیئر مسلم لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ یہ سب کام اپوزیشن کر رہی ہے اور کر کے دیکھ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتحادیوں نے ہم سے کہا تھا کہ اب چاہے ہمیں فون کر کے کہا جائے کہ حکومت کا ساتھ دیا جائے تو بھی ہم نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ 23 حکومتی جماعت کے اپنے اراکین نے کہا کہ وہ حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ لیکن پھر ان کو فون کالز آنا شروع ہو گئیں اور ان کو کہا گیا کہ اگر عزت سے جانا چاہتے ہیں تو گاڑی بھیج دیتے ہیں ورنہ دوسرے طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں۔

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ آپ سینیٹ میں تحریکِ عدم اعتماد لا سکتے تھے لیکن آپ وہ بھی نہیں لائے۔ رانا ثنااللہ کا جواب تھا کہ آپ شاید جو بات میں کر رہا ہوں، اس بات کو زیادہ کھولنا نہیں چاہتے کیونکہ میں آپ کو واضح الفاظ میں بتا رہا ہوں کہ لوگوں کو زبردستی مشترکہ اجلاس میں بلایا گیا۔ اگر یہ کام روک دیا جائے تو سینیٹ میں تحریکِ عدم اعتماد کل صبح آ سکتی ہے لیکن جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح حکومت کے نمبرز پورے کروائے جا رہے ہیں تو ہمیں نظر نہیں آتا کہ پھر سینیٹ میں تحریکِ عدم اعتماد لانے کا کیا فائدہ ہوگا۔

یہ وہ موقع تھا کہ جب شاہزیب خانزادہ بھی رانا ثنااللہ کے الفاظ میں 'بات کو کھولنے' پر آمادہ ہوئے اور انہیں یاد دلایا کہ یہ سب کچھ 20 نومبر سے پہلے ہوا تھا اور 20 نومبر کے بعد تو معاملات بدل گئے ہیں۔ اس پر رانا ثنااللہ خاصے جزبز ہوتے نظر آئے اور کچھ واضح جواب دینے سے کتراتے ہوئے بولے کہ وہ 20 نومبر بھی دیکھیں، 20 نومبر سے پہلے یا 20 نمبر کے بعد۔۔۔ بہرحال، اس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہر بندے کی اپنی ایک رائے ہے۔ لیکن، چلیں۔۔۔ یہ بھی دیکھ لیا جائے گا۔ 20 نومبر کے بعد اگر کوئی صورتحال تبدیل ہوئی ہے تو اس کا بھی آنے والے دنوں میں اندازہ ہو جائے گا۔