ضلع پنجگور کے 67 جبری طور پر لاپتا افراد سالوں بعد اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے

ضلع پنجگور کے 67 جبری طور پر لاپتا افراد سالوں بعد اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے
ملک میں لاپتا افراد اور جبری گمشدگیوں پر کام کرنے والے کمیشن نے ماہ نومبر کے اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ ماہ (نومبر) میں بلوچستان کے ضلع پنجگور سے سالوں پہلے جبری طور پر لاپتا کئے گئے 67 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ہیں۔

کمیشن کے مطابق ضلع پنجگور کے ڈپٹی کمشنر نے پیش ہوتے کر حلف نامے پر جواب جمع کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی۔

واضح رہے کہ ان افراد کے کیسز کمیشن کے پاس درج کئے جا چکے تھے اور کمیشن نے ماہ نومبر کے اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے ضلع پنجگور کے ان رہائشیوں کے کیسز سالوں سے کمیشن کے پاس درج تھے جن کے بعد ان پر کام مکمل کیا گیا۔

کمیشن کے مطابق واپس لوٹنے والوں افراد میں الیاس بلوچ، سہیل شریف، ظریف بلوچ، اسلم، شریف ، قادر بخش، مومن، علیم، غلام، آرز محمد،خیر محمد، مجید ، ایوب،صدام حسین، عبدالرحمان، میرجان، عمیت،امین، محمد یار، نور بخش ، خداداد، نواز علی ، ریاض، بلال ، نذیر، محبوب، اختر، ممتاز، قادر بخش، آواز، خلیل، حیات ، نظام، ساجد ، عبدالواحد، گلاب، ثناء اللہ، نوید  احمد، عبداللہ، بلوچ، یوسف، اختر، خلیل ، شعیب، جاوید، فیصل، عبدالواحید، ذاہد، مظہر، بیاجان، شیر دل، قادر، محمد بخش، یاسین، عبدالواحید، طلال، عارف ، اسلم ، حسین بخش، فضل، عیسؑی ، الیاس، مرشد، پیر بخش، خالد داد، اسد، عیسیٰ اور نواز اور دیگر شامل ہے۔

نیا دور میڈیا نے ٹیلیفون کے ذریعے بلوچستان کے ضلع پنجگور کے کئی خاندانوں سے رابطہ کرکے جبری طور پر لاپتا افراد کی واپسی کی تصدیق کی۔

ملک میں جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد پر کام کرنے والے کمیشن نے ماہ نومبر کے جاری کردہ اعدادوشمار میں کہا ہے کہ گذشتہ ماہ لاپتہ افراد کے 88 مزید کیسز موصول ہوئے۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ نومبر کے مہینے میں 92 لاپتا افراد کا سراغ لگا لیا گیا جن میں سے 83 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے جبکہ کمیشن نے جبری طور پر لاپتا کئے گئے پانچ مزید افراد کا بھی سراغ لگا لیا جو فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید ہیں۔

کمیشن کے مطابق جبری طور پر لاپتا کئے گئے 2 مزید افراد کا بھی سراغ لگا لیا گیا اور وہ مختلف مقدمات کے تخت جیلوں میں قید ہیں جبکہ گذشتہ ماہ دو افراد کی نعشیں بھی ملی ہے۔ 31 مزید ایسے کیسز کو خارج کیا گیا جو کمیشن کے پاس جبری گمشدگیوں کے طور پر درج  ہو چکے تھے مگر وہ جبری گمشدگیوں یا لاپتا افراد کے نہیں تھے۔

اعدادوشمار کے مطابق کمیشن کے قیام کے بعد لاپتا افراد کے 8191 کیسز موصول ہوئے جن میں سے 6047 کو حل کیا جا چکا ہے جبکہ 2232 لاپتا افراد کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

کمیشن نے متحدہ قومی مومنٹ کے کراچی میں یونٹ انچارج سید کریم الدین کے کیس کو بھی نمٹا دیا۔ ان کی بیوی مہوش کنول نے بتایا کہ اُن کے خاوند کی نعش ملی جن کو چیپا کے رضاکاروں نے دفن کیا تھا اور نعش کی شناخت بعد میں نے کردی جس کے بعد اس کیس کو بند کردیا گیا۔

کمیشن نے پشاور کے رہائشی سعود عبدالمالک کا کیس بھی خارج کیا۔ انھوں نے موقف اپنایا کہ ان کو کسی نے جبری طور پر لاپتا نہیں کیا تھا بلکہ وہ ایک نجی ہسپتال چلا رہے تھے اور کورونا وائرس کی وجہ سے ہسپتال نقصان میں چلا گیا اس لئے پریشانی کی حالت میں انھوں نے گھر چھوڑ دیا تھا اور بیمار ہونے کے بعد واپس اپنے گھر لوٹ آئے۔

کمیشن نے بلوچستان کے ضلع پنجگور کے رہائشی ظریف بلوچ کے کیس کو بھی نمٹا دیا اور ڈپٹی کمشنر نے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے موقف اپنایا کہ ظریف بلوچ دو سال بعد اپنے گھر واپس لوٹ چکے ہیں۔

واضح رہے کہ جبری گمشدگیوں کا شکار ہونے کے بعد اپنے گھروں کو واپس لوٹنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بلوچستان کے ضلع پنجگور کے رہائشیوں کی ہے۔ کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق جون کے مہینے میں جبری طور پر لاپتا کئے گئے 137 بلوچ اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں اور ایک مہینے میں اپنے گھروں کو واپس لوٹنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔