سندھ ہائیکورٹ نے رینجرز کو حیدرآباد کے اسکول کا ہاسٹل خالی کرنے کی ہدایت کردی

سندھ ہائیکورٹ نے رینجرز کو حیدرآباد کے اسکول کا ہاسٹل خالی کرنے کی ہدایت کردی
سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان رینجرز سندھ اور صوبائی حکام کو ہدایت کی ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ 3 ماہ میں تاریخی نور محمد ہائی اسکول کا ہاسٹل خالی کردیا جائے کیوں کہ عمارت تعلیمی مقاصد کے لیے تھی۔

تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے کہا کہ ہاسٹل جو اس وقت پیراملٹری فورس کی رہائش کے لیے استعمال ہورہا ہے اس کا قبضہ اسکول انتظامیہ کے حوالے کیا جائے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ رینجرز کو رہائش کی ضرورت ہو لیکن صرف اس طرح کی ضرورت عمارت پر قبضے کی وجہ نہیں بن سکتی، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اگر ضرورت ہے تو ان کی رہائش کا بندوبست کرے۔

بینچ نے سیکریٹی محکمہ ثقافت کو ہدایت کی کہ ورثے کے دائرہ کار میں نور محمد اسکول، مسلم ڈگری کالج اور مخدوم بلاول ہاسٹل کے معائنے کے لیے ایک ٹیم مقرر کی جائے اور اگر تینوں عمارتیں مطلوبہ معیار پو پورا اتریں تو انہیں نوٹیفائی کیا جائے اور ریاست ان کی دیکھ بھال پر اخراجات کرے اور حفاظت کی جائے۔

نور محمد ہائی اسکول کے معائنے سے متعلق گزشتہ عدالتی حکم کی روشنی میں حیدرآباد کے ایک اسسٹنٹ کمشنر نے عبوری تعمیلی رپورٹ اور محکمہ تعلیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے بھی ایک رپورٹ عدالت میں جمع کروائی۔

رپورٹ میں بینچ کو آگاہ کیا گیا کہ نور محمد لاکھیار ایڈووکیٹ کی جانب سے اپنے تمام اثاثے بشمول گھر ترک کرنے کے بعد اسکول کی 14 ہزار 550 مربع گز اراضی (تقریباً ساڑھے 3 ایکڑز) عطیہ کی گئی تھی جو 1934 میں مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے نام پر شہر کے سروے میں شامل کی گئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اسکول، ہاسٹل اور کالج کی عمارتیں اپنی نوعیت میں منفرد اور تاریخی اور آرکیٹیکچر اہمیت کی حامل ہیں جبکہ ہاسٹل پر رینجرز کا قبضہ ہے۔

بینچ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ ان عمارتوں کی تاریخی اہمیت اور آرکیٹیچرل نوعیت سے بادی النظر میں اس بات کی متقاضی ہیں کہ انہیں تعلیمی ادارے برقرار رکھتے ہوئے محفوظ کیا جائے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ اس کے مطابق سیکریٹری داخلہ، حکومت سندھ، پاکستان رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل، کمشنر حیدرآباد کے علاوہ چیف سیکریٹری سندھ کو اس ہدایت کے ساتھ نوٹسز جاری کیے جارہے ہیں کہ ہاسٹل جو تعلیمی مقاصد کے لیے اسے 3 ماہ میں خالی کرایا جائے۔

ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس کا قبضہ نور محمد ہائی اسکول کی انتظامیہ کو دیا جائے۔

نور محمد ہائی سکول کی ملکیتی دکانوں کے 21 کرایہ داروں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ کرایہ دار رینٹ کنٹرولر کے پاس کرایہ جمع کرا رہے تھے۔

بینچ نے رینٹ کنٹرولر کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کرایے کی رقم اسکول کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے اور اسے کمیٹی کے ذریعہ استعمال کیا جائے جیسا کہ حکومت نے نوٹیفائی کیا تھا۔