الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے انتخابات، الیکشن کمیشن نےکسی قسم کا دباؤ لینے سے انکار کر دیا

الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے انتخابات، الیکشن کمیشن نےکسی قسم کا دباؤ لینے سے انکار کر دیا
الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے انتخابات کروانے کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے کسی قسم کا دباؤ لینے سے واضح انکار کر دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق قومی اخبار دی نیوز میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باخبر ذرائع نے بتایا کہ دنیا میں آج تک کسی ملک نے ایسی کوئی توقع نہیں کی جیسی الیکشن کمیشن سے 2023ء کے انتخابات کے حوالے سے کی جا رہی ہے۔

پاکستان کے مقابلے میں دیکھیں تو بھارت میں ووٹرز کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن وہاں بھی انتخابات ریاستی سطح پر مرحلوں میں ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق حکومت کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کمیشن اپنی بھرپور کوشش کر رہا ہے، حکومت کی حالیہ قانون سازی میں کمیشن سے مطالبہ کیا گیا کہ انتخابات ای وی ایم کے ذریعے کروائے جائیں۔

تاہم، حساسیت کی وجہ سے الیکشن کمیشن انتخابات ای وی ایم کے ذریعے کروانے کا فیصلہ دباؤ میں آ کر نہیں کرے گا۔

ایک عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ ہم یہ کام صرف اسی صورت کریں گے جب ہم خود مکمل طور پر مطمئن ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ای وی ایم سسٹم کے کارگر ہونے کے حوالے سے مشاورت کیلئے حال ہی میں تشکیل دی گئیں تین کمیٹیوں کے حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ کمیٹیوں کو چار ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ اپنی تجاویز پیش کریں۔

ان ذرائع نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگرچہ حکومت کا الیکشن کمیشن سے اصرار ہے کہ وہ جلد ای وی ایم خریدے لیکن کمیشن ٹینڈرنگ پراسیس کی لوازمات کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ ٹینڈرنگ کے معاملات پر عمل کرنا ہے اور انہیں نظرانداز نہیں کرنا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت میں کچھ عناصر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ دبئی کی کمپنی سے ای وی ایم خریدی جائیں۔

کہا جاتا ہے کہ حکومت کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بتایا گیا کہ اگر یہی مشینیں ہنگامی بنیادوں پر چاہئیں تو اس کیلئے حکومت پاکستان یو اے ای کی حکومت سے رابطہ کرکے خریدے۔ اگر یہ مشینیں دبئی کی کسی نجی کمپنی کی تیار کردہ نہیں ہیں تو ٹینڈرنگ پراسیس پر عمل کرنا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی میں جب ای سی پی نے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت ای وی ایم کے ذریعے ضمنی الیکشن کرایا تھا تو مشین کی پروکیورمنٹ (خریداری) کے معاملات میں 9 ماہ لگے تھے۔