'بینظیر بھٹو کو شہید کرنے دو خود کش بمبار آئے، ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، دوسرا آج بھی زندہ'

'بینظیر بھٹو کو شہید کرنے دو خود کش بمبار آئے، ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، دوسرا آج بھی زندہ'
اعزاز سید نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو کو شہید کرنے دو خود کش بمباروں کو بھیجا گیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک نے 27 دسمبر 2007ء کے روز لیاقت باغ راولپنڈی میں خود کو اڑا لیا تھا تاہم دوسرا آج بھی زندہ ہے، اس کی ان دنوں کابل میں موجودگی کی اطلاعات ہیں۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری سمیت تمام لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل کس نے کیا؟ اور اس کے پیچھے کون ہے؟ سامنے کے کرداروں کا زرداری صاحب، مسلم لیگ ن اور سابق صدر مشرف نام لے چکے ہیں لیکن جو پس پردہ ہیں، آج تک ان کا نام کوئی نہیں لے رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کے قتل میں بیت اللہ محسود اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملوث تھی۔ ان کے دو خود کش بمبار 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں موجود تھے۔ ان میں سے ایک بمبار نے خود کو اڑا لیا، اس لئے وہ مارا گیا لیکن جو دوسرا تھا وہ آج بھی زندہ ہے۔

اعزاز سید نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند دن قبل افغانستان سے کچھ دوست ملاقات کیلئے آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی اس خود کش بمبار اکرام اللہ سے ملاقات ہوئی ہے۔ آج سے چند دن قبل تک وہ کابل میں تھا۔

انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں جو لوگ گرفتار ہوئے تھے انھیں 31 اگست 2018ء کو رہا کر دیا گیا تھا کیونکہ پراسیکیوشن عدالت میں اپنا کیس ثابت نہیں کر سکی۔ مزید ظلم یہ کہ اس کی اپیل بھی نہیں ہوئی۔ بینظیر بھٹو کی فیملی نے بھی اس معاملے کو آگے نہیں بڑھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے بندے بھیجنے کی اطلاع ہمارے پاس تھی۔ 5 اکتوبر کو میں نے ڈیلی ٹائمز میں خبر بریک کر دی تھی کہ بیت اللہ محسود نے بینظیر بھٹو کو مارنے کیلئے بندے بھیج دیئے ہیں۔۔ میری خبر کی اشاعت کے بعد بیت اللہ محسود نے اس کی تردید کی تھی کہ ہم بینظیر بھٹو کو نہیں مارنا چاہتے۔ 18 اکتوبر کو جب بینظیر بھٹو پر حملہ ہوا تو طالبان نے بھی تردید کی تھی کہ یہ خبر ٹھیک نہیں ہے۔ پھر جب 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں انھیں قتل کر دیا گیا تو لوگوں کے غم وغصہ کو دیکھتے ہوئے پھر انہوں نے اس میں ملوث نہ ہونے کی سختی سے تردید کی۔ لیکن آج کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے اپنی کتاب میں خود اعتراف کیا ہے کہ ہم نے بینظیر بھٹو کو قتل کیا تھا اور کیوں کیا تھا؟ وہ بھی لکھا ہوا ہے۔

اعزاز سید کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ جب 2 مئی 2011ء کو اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر کارروائی کرکے اسے ہلاک کیا گیا۔ اس دوران وہاں سے ایک خط ملا جس میں بینظیر بھٹو کے قتل سے آگاہ کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ذمہ داری کیساتھ کہتا ہوں کہ جس دن اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا علم ہو جائے گا کہ اسے کس نے وہاں رکھا تھا، بینظیر بھٹو کے قتل کے اصل کردار کا بھی پتا چل جائے گا۔ بینظیر بھٹو کا قتل، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی سے جڑا ہوا ہے۔