کیا ملک کی نئی نیشنل سیکیورٹی پالیسی سودمند ثابت ہوگی؟

کیا ملک کی نئی نیشنل سیکیورٹی پالیسی سودمند ثابت ہوگی؟
وزیراعظم کے زیر صدارت گذشتہ روز ہونے والے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل سیکیورٹی پالیسی کی منظوری دیدی گئی۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق بریفنگ میں بتایا گیا کہ قومی سلامتی پالیسی ایک جامع قومی سیکیورٹی فریم ورک کے تحت ملک کے کمزور طبقے کا تحفظ، سکیورٹی اور وقار یقینی بنائے گی اور شہریوں کے تحفظ کی خاطر پالیسی کا محور معاشی سیکیورٹی ہو گا۔

اعلامیہ کے مطابق معاشی تحفظ ہی شہریوں کے تحفظ کا ضامن بنے گا اور پالیسی سازی کے دوران تمام وفاقی اداروں، صوبائی حکومتوں، ماہرین اور پرائیویٹ سیکٹر سے تفصیلی مشاورت کی گئی پالیسی پر عملدارمد یقینی بنانے کے لیے فریم ورک تیار کیا گیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی سے منظوری کے بعد پالیسی وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی جائے گی۔

اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق کمیٹی نے ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی 2022- 2026ء کی منظوری دی۔

نیشنل سیکیورٹی پالیسی کیا ہے؟

مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ نئی قومی سلامتی پالیسی پاکستان کی تاریخ میں پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے جسے بنانے میں سات سال کا عرصہ لگا اور اس پر تمام جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہے اور اس قومی سلامتی پالیسی کا بنیادی مقصد عام شہری کا تحفظ اور اس کا محور معاشی سکیورٹی ہے۔

مشیر قومی سلامتی نے مزید کہا کہ ماضی میں پیش کی گئی پالیسی داخلی سلامتی سے متعلق تھی جو نئی قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بھی ہے جبکہ یہ پالیسی داخلی سلامتی، خارجہ امور، انسانی سیکیورٹی اور معاشی سکیورٹی کا احاطہ کرتی ہے اور اگر ہماری معیشت مضبوط ہو گی تبھی ہمارا شہری محفوظ ہوگا اور دفاعی سلامتی بھی اسی صورت میں ممکن ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس دستاویز میں شامل خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ پاکستان ہمسایہ ممالک سمیت تمام ممالک کے ساتھ امن کا خواہاں ہے۔ مشیر سلامتی معید یوسف نے کہا کہ یہ دستاویز ایک ہفتے بعد میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائے گی اور پارلیمان میں جائے گی۔

کیا یہ پاکستان کی پہلی سیکیورٹی پالیسی ہے؟

بہت سارے حلقوں میں یہ بحث زیر بحث ہے کہ یہ ملک کی پہلی سیکیورٹی پالیسی ہے مگر اس سے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی فروری 2014ء میں قومی سیکیورٹی پالیسی کی منظوری دی تھی مگر مسلم لیگ (ن) کے دور میں بنی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا محور داخلی محاذ پر درپیش سیکیورٹی مسائل تھے جبکہ موجودہ حکومت کی سیکیورٹی پالیسی میں معیشت اور خارجہ امور پر بھی ترجیح دی گئی ہے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں بننے والی پالیسی میں شہری آزادیوں کا تحفظ، سول آزادیاں اور سماجی ومعاشی حقوق کا تحفظ شامل تھا اور موجودہ پالیسی میں بھی انہی موضوعات پر ترجیح دی گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے آخری سال 2018 میں قومی سلامتی پالیسی دوم 2018 تا 2023 کی  بھی منظوری دی تھی۔

سیکیورٹی امور کے ماہر اور تجزیہ کار عامر رانا نے نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا اختیار ہمیشہ سے قومی سلامتی کے اداروں کے پاس رہا اور پارلیمنٹ اور انتظامیہ نے بہت کم اس میں مداخلت کی ہے اور دونوں سٹیک ہولڈرز عموماً قومی سلامتی کے اداروں کی حکمت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی یا سلامتی سے متعلق پالیسیوں کو اکثر قومی عزم اور کوششوں کے نتائج اور عکاسی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن شاید ہماری شمولیت کی تعریف باقی دنیا کی تعریف سے مختلف ہے۔

معاشی سیکیورٹی اور ملک کے سیاسی حالات

حکومت کی جانب سے منظوری کی گئی نیشنل سیکیورٹی پالیسی میں معاشی سیکیورٹی کو بھی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے مگر معیشت کو سمجھنے والے ماہرین اور دفاعی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت میں ناصرف معیشت کی حالت ابتر ہوئی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی، خارجہ امور اور ملک کی سیاسی صورتحال بھی غیر یقینی ہے تو اس  تمام تناظر میں معاشی سیکیورٹی کو یقینی بنانا ایک مشکل عمل ہے۔

سیاست دانوں کا ردعمل

سیکیورٹی امور کے ماہر اور تجزیہ کار عامر رانا نے نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا مسود ہ ہمیشہ قومی سلامتی کے اداروں کے پاس رہا اور پارلیمنٹ اور انتظامیہ نے بہت کم اس میں مداخلت کی ہے اور قومی سلامتی کے اداروں کی حکمت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ لیکن دہشت گردی یا سلامتی سے متعلق پالیسیوں کو اکثر قومی عزم اور کوششوں کے نتائج اور عکاسی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن شاید ہماری شمولیت کی تعریف باقی دنیا کی تعریف سے مختلف ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ سلامتی پالیسی پر پارلیمنٹ کی نہ رائے لی گئی اور نہ ہی اسے اعتماد میں لیا گیا ہے۔انھوں نے مزید کہا  کہ قومی سلامتی پالیسی کو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی میں تشکیل دیا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی تمام شراکت داروں، افواج، تھنک ٹینکس اور حکومتی محکموں کی مشاورت سے پالیسی تیار کرتی ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ پارلیمانی کمیٹی کی رائے کے بعد پالیسی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کی جانی چاہیے تھی۔ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی وفاقی کابینہ سے منظور ہوئی ہے اور ایک ہفتے کے اندر اندر اس کو پبلک کیا جائے گا۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یونیفارم اور بغیر یونیفارم کچھ انفرادی افراد کو کس نے یہ اختیار دیا کہ وہ نیشنل سیکیورٹی پالیسی ترتیب دیں اور دوسری جانب یہ دعویٰ کیا گیا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی رائے اس پالیسی بنانے پر لی گئی ہے ایک مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ تاحال یہ پالیسی پارلیمنٹ کے سامنے نہیں لائی گئی۔

نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر تجزیہ کاروں کی رائے

عامر رانا کہتے ہیں کہ شہر اقتدار میں تین سیکیورٹی پالیسیوں کی بازگشت سنائی دیں رہی تھی۔ ایک طرف نیشنل سیکیورٹی  کمیٹی ایک پالیسی کی منظوری دیں رہی تھی جبکہ دوسری جانب انسداد دہشتگردی کے ادارے نیکٹا نے وزارت داخلہ کو انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے ایک پالیسی جمع کی اور اس پالیسی کے احکامات ایک ایسے ادارے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل نے دی جو نیکٹا کو قائم کرنے کے بعد غیر فعال کی گئی تھی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اینٹیلجنس کوارڈینیشن کمیٹی کو بھی پھر سے فعال کیا گیا۔

خارجہ امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی نے نیا دور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کی وضاحت کرتی چلو کہ یہ پالیسی موجودہ حکومت کی نہیں بلکہ اس پالیسی پر سات سال سے کام ہو رہا تھا اور صرف موجودہ حکومت نے اس کو حتمی شکل دی ہے لیکن میں اس چیز کو واضح کرو کہ یہ حکومت کی پالیسی نہیں بلکہ ریاست کی پالیسی ہے اور اس کو طویل عرصے تک چلنا ہے۔

عامر رانا کہتے ہیں کہ اس پالیسی بنانے کے عمل میں سول سوسائٹی، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو باہر رکھا گیا اور ان سے کوئی رائے نہیں لی گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو سیکیورٹی پالیسی کی بجائے  انسانی سیکیورٹی پالیسی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ نیشنل سیکیورٹی پالیسی میں یہ شامل نہیں ہے کہ جمہوریت کو کیسے مضبوط کریں، اداروں کے درمیان توازن کیسے پیدا کریں ، وسائل کی یکسا تقسیم کیسے ہو، قوم پرستی کا ازسر نو جائزہ کیسے لیں ، انہتاپسندی جو ملک کی خود مختاری کے لئے چیلنج بن رہا ہے کو کیسے کم کریں اور بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کو کیسے بہتر کریں شامل ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہے کہ پاکستان پہلی بار جیو اکنامکس کی طرف جارہا ہے کیونکہ اس کا اعلان تو بہت پہلے ہوا تھا لیکن اب پالیسی کی شکل میں سامنے آیا ہے اور اب اگر ایران اور سعودی کا تنازعہ ہو یا امریکہ کا کسی ملک کے ساتھ تنازعہ ہو لیکن پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا کیونکہ ان جنگوں میں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لایا ہے۔

خارجہ امور اور پاکستان ہندوستان تعلقات پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار متین حیدر سمجھتے ہیں کہ یہ پالیسی تو بظاہر بہت اچھی ہے لیکن اب دیکھنا ہے کہ اس میں عملی اقدامات نظر آتے ہیں کہ نہیں ۔متین حیدر کے مطابق خطے میں ہمارا بڑا حریف ہندوستان ہے اور اس کے ساتھ تعلقات نارمل رکھنے کے لئے ماضی کی حکومتوں نے کوشش کی تھی مگر سول ملٹری تعلقات اچھے نہیں تھے اس لئے کچھ نہیں ہوسکا۔ ان کے مطابق اگر انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی گئی تو دونوں ملکوں کے بیچ تجارت سے دونوں ملکوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ متین حیدر کے مطابق بس شرط یہ ہے اور اس پالیسی کو بہتر بنانا ہے تو پاکستان کسی بیرونی ملک کا آلہ کار نہ بنے تب ہی یہ پالیسی سود مند ثابت ہوگی۔

ہما بقائی سمجھتی ہے کہ اگر اس پالیسی پر پارلیمان میں بحث نہیں ہوگی تو اس کے فوائد سامنے نہیں آئینگے کیونکہ پھر معلوم نہیں ہوگا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کا کیا کرینگے  اور سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کیسے ہونگے تو اب ضروری ہے کہ اس پالیسی کو پارلیمان میں بحث و مباحثے کے لئے لایا جائے۔

ہما بقائی اس بات کی تردید کرتی ہے کہ یہ پالیسی بند کمرے میں بنائی گئی ہے بلکہ ان کا ماننا ہے کہ اس میں ملک بھر سے مختلف ماہرین کو شامل کیا گیا تھا لیکن میں یہ بتاتی چلو کہ اس پالیسی کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی اگر اس میں پارلیمان کو شامل نہیں کیا گیا۔

لیکن عامر رانا سمجھتے ہیں کہ یہ پالیسی جو معید یوسف صاحب بتا رہے ہیں پہلے سے موجود ہے اور صرف الفاظ کی ہیرا پھیری سے وہ اس پالیسی کو بنانے کا کریڈٹ لے رہے ہیں مگر پہلے بنی ہوئی پالیسیوں کی طرح اس پالیسی میں بھی ان تمام سوالات کے جوابات نہیں ہے اور اس کے کوئی فوائد سامنے نہیں ائینگے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو ایک  ترقی پسند اور جدید سماج بنانے کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے مگر یہ ممکن دکھائی نہیں دیں رہا ہے کیونکہ ریاست اور سماج دونوں طالبان کی محبت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نوید قمر سمجھتے ہیں کہ پالیسی ہمیشہ حکومت بناتی ہے لیکن اس پر پارلیمان میں بحث ہوتی ہے اور تجاویز لینے کے بعد اس منظوری دیتی ہے لیکن یہاں چیزیں الٹی ہے اور پہلے پالیسی منظور ہوئی پھر خانہ پوری کے لئے اس پر رسمی بحث ہوگی اور پھر منظور کی جائے گی اور ظاہر ہے اس کی کوئی افادیت نہیں ہوگی کیونکہ جس میں پارلیمان کی تجاویز شامل نہیں وہ کیسے آگے چلے گی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔