'جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کیلئے سینیورٹی کو مقدم نہیں رکھا گیا، اعتراضات اٹھتے رہیں گے'

'جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کیلئے سینیورٹی کو مقدم نہیں رکھا گیا، اعتراضات اٹھتے رہیں گے'
صلاح الدین احمد ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ قابلیت کا ایک معیار طے کرکے اسی کی بنیاد پر ججوں کی تعیناتیوں کا عمل ہونا چاہیے۔ پشاور ہائیکورٹ کی جج مسرت ہلالی عائشہ ملک صاحبہ سے زیادہ سینئر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس چیز سے انکار نہیں کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ عدالت عظمیٰ میں ایک خاتون جج کی تعیناتی ہوئی ہے۔ اگر معاملات روٹین کیساتھ چلتے رہے تو وہ 10 سال بعد چیف جسٹس آف پاکستان بھی بنیں گی۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام خبر سے آگے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ میری عائشہ ملک صاحبہ سے اس معاملے میں کوئی مخالفت نہیں لیکن جب سینیورٹی کو فالو نہ کیا جائے تو پھر اعتراضات تو اٹھتے ہیں کہ کہیں اس میں پسند اور ناپسند کا معاملہ تو نہیں ہے۔ کہیں کسی کی مرضی پر تو تعیناتی تو نہیں ہو رہی۔

پروگرام کے دوران فارن فنڈنگ کیس کے معاملے پر بھی گفتگو کی گئی۔ اس پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے احمد حسن ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ایک چیز پر میں بہت ہی حیران ہوں کہ سکروٹنی کمیٹی نے بغیر کوئی وجہ بتائے فیصلہ کیا وہ اپنی فائنڈنگ کی دو رپورٹس بنائے گی، جن میں ایک کو خفیہ جبکہ دوسری کو پبلک کیا جائے گا۔

احمد حسن ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ کمیٹی نے یہ پوزیشن کیوں لی ہے۔ اسے قانونی رائے دینے کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی تھی بلکہ اس بس حقائق سامنے لانے کا کہا گیا تھا۔

اپنی خبر کے بارے میں بات کرتے ہوئے فخر درانی کا کہنا تھا کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں ممتاز مسلم صاحب کا بھی نام تھا جنہوں نے پی ٹی آئی کو 25 ہزار ڈالر دئیے۔ ان کا نام پینڈورا پیپرز میں بھی موجود تھا۔ انہوں نے 2006ء میں دریشک سیکیورٹی سولیوشن کے نام سے برٹش ورجن آئی لینڈ میں ایک آف شور کمپنی بنائی تھی۔

فخر درانی کا کہنا تھا کہ مزید تحقیق کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ اس کمپنی نے عراق اور افغانستان کی جنگ میں امریکی فوج کو سیکیورٹی فراہم کی تھی۔ کمپنی کی اپنی ویب سائٹ پر دی گئی انفارمیشن کے مطابق انہوں نے لگ بھگ 15 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کو امریکی فوج کی معاونت کیلئے محاذوں پر بھیجا۔ ان لوگوں میں سے زیادہ تر کو افریقا سے بھرتی کیا گیا تھا۔ انھیں مکمل ملٹری ٹریننگ دینے کے بعد عراق یا افغانستان میں تعینات کر دیا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے ہمیشہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کی مخالفت کی حتیٰ کہ نیٹو سپلائی کو ہی بند کر دیا تھا اس کے علاوہ ڈرون آپریشن کیخلاف بھی لانگ مارچ کیا تھا۔ لیکن اسی وقت ایک ایسی کمپنی سے فنڈنگ بھی لی جا رہی تھی جو امریکی فوج کو جنگ میں بھرپور معاونت کر رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ممتاز مسلم صاحب کے حوالے سے دلچسپ حقائق سامنے آئے تو مزید تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ 2018ء سے لے کر 2020ء کے درمیانی عرصے میں ان کی وزیراعظم عمران خان کیساتھ بھی مختلف مواقع پر ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ 2018ء میں جب عمران خان وزیراعظم نہیں تھے، ممتاز مسلم صاحب کی بنی گالا میں ان سے ملاقات ہوئی جس کے کچھ دنوں بعد نوٹی فیکیشن ایشو کرکے ان کو مشیر تعینات کر دیا گیا تھا۔

صحافی فخر درانی نے بتایا کہ ستمبر 2021ء میں ممتاز مسلم صاحب کی خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کیساتھ ملاقات ہوئی اس کے بعد اکتوبر میں ایک معاہدہ ہوا جس میں نتھیا گلی میں ایک فائیو سٹار ہوٹل بنانے کا ٹھیکہ انھیں دیدیا گیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانچ پڑتال کمیٹی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پارٹی ڈونر ممتاز احمد مسلم نے پی ٹی آئی کو 24 ہزار سے زائد ڈالرز عطیہ کئے تھے۔ ممتاز مسلم بیرون ہوٹلز کے صدر اور مالک ہیں۔