چلی اور پاکستان کے حالات اور پالیسیوں میں مماثلت، بغاوت کے آثار یہاں بھی نظر آنا شروع

چلی اور پاکستان کے حالات اور پالیسیوں میں مماثلت، بغاوت کے آثار یہاں بھی نظر آنا شروع
عمار علی جان نے کہا ہے کہ منی بجٹ یا سٹیٹ بینک کا بل اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کیخلاف چلی میں بغاوت کی گئی۔ پاکستان میں بھی اب اسی بغاوت کے آثار نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فری مارکیٹ اکانومی کا تجربہ سب سے پہلے چلی میں ہی شروع کرکے اسے بعد ازاں پوری دنیا میں نافذ کیا گیا۔ اس کا مقصد ہی یہی تھا کہ انڈسٹریز کو پرائیوٹائز کرتے ہوئے ویلفیئر کی تمام پالیسیوں کو ختم کیا جائے اور اگر سٹوڈنٹس یا ٹریڈ یونیز کی جانب سے اس کیخلاف ہڑتال ہو تو ڈنڈے کے زور پر اسے چپ کرا دیا جائے۔

یہ باتیں انہوں نے چلی اور پاکستان کے حالات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔ عمار علی جان کا کہنا تھا کہ اسی لئے چلی کو نیولبرل ازم کی لیبارٹری کہا جاتا ہے جس کی بنیاد جنرل پنوشے کے ہاتھوں رکھی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں فری مارکیٹ کا تصور اتنا آسان طریقے سے نہیں بلکہ لوگوں پر بندوق کے ذور پر نافذ کیا گیا تھا۔ پاکستان میں یہی تصور 1980ء کی دہائی میں ایک فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے ذریعے لایا گیا۔ جس طرح چلی میں جنرل پنوشے نے لوگوں کو غائب کیا، کوڑے مارے، جیلوں میں ڈالا اور کلچرل وار شروع کی بالکل اسی طرح یہاں بھی کیا گیا۔

عمار علی جان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی اداروں کے درمیان ایک معاہدہ جسے washington consensus  کا نام دیا جاتا ہے، اسے چلی کے بعد تمام ممالک پر نافذ کیا گیا۔ اسی نظام نے جگہ جگہ تباہی مچائی۔ اس کی سب سے بڑی خرابی عدم مساوات ہے۔ یو این ڈی پی کے اعدادوشمار کے مطابق صرف 8 خاندان دنیا کی لگ بھگ 50 فیصد دولت پر قابض ہیں۔ اشرافیہ مریخ پر جانا چاہ رہی ہے اور دوسری جانب دنیا میں غریبوں کیلئے پانی تک میسر نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی نظام کیخلاف نفرت کی جھلک ہمیں 2011 اور 2019 میں چلی ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں نظر آئی تھی۔ ان ہی کے مظاہروں کے دوران نوجوان قیادت سامنے آئی ان میں سے ایک گیبرئیل بورک تھے، جو اب وہاں کے صدر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہی صورتحال پاکستان کے اندر ہے۔ وہ پالیسیاں جو 70 کی دہائی سے چلی کے اندر ناکام ہو رہی ہیں، انھیں آج بھی پاکستان میں رائج کیا جا رہا ہے۔ منی بجٹ یا سٹیٹ بینک کا بل اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کیخلاف چلی میں بغاوت کی گئی۔ پاکستان میں اب اسی بغاوت کے آثار نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔

عالیہ امیر علی کا کہنا تھا کہ لاطینی امریکا اور پاکستان کے سماج اور سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بائیں بازو کی سیاست کو اس طرح پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ لیکن دوسری جانب لاطینی امریکا میں اس کا ہمیشہ ایک تسلسل رہا۔ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کو ہمیشہ مذہب کے سامنے لا کر کھڑا کردیا گیا۔ اسی طرح بہت سے دوسرے حربے استعمال کرتے ہوئے اسے ہمارے ملک میں کمزور کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ چلی میں نوجوان قیادت کے ہاتھ میں ملک کی باگ دوڑ آنا ایک دم سے نہیں ہوا بلکہ اس کیلئے باقاعدہ تحریکیں چلائی گئیں۔ اس کے علاوہ چلی کی سیاست میں عورتوں کا بھی بہت کردار ہے۔ یہاں تو ابھی بحث چلی رہی ہے کہ عورت کے حقوق کیا ہیں؟

ڈاکٹر اقدس افضال کا کہنا تھا کہ چلی کے بارے میں پاکستانیوں کو پڑھنا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ وہاں ترقی کی شرح بہت زیادہ بڑھی لیکن اس نے بہت کم لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ وہاں کے نوجوان عمرانی معاہدے سے بالکل غیر مطمئن ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک لوگوں کو بنیادی صحت، تعلیم اور پنشن کی سہولت دے سکے۔ وہ اپنے ملک کو ایک ویلفئیر سٹیٹ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

عاصم سجاد اختر کا کہنا تھا کہ چلی میں آج سے پچاس سال پہلے امریکا کی سرپرستی میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے جنرل پنوشے نے وہاں حکومت سنبھالی اور بدنام زمانہ شکاگو بوائز کے آسرے پر نیولبرل ازم کا آغاز کیا گیا۔ چلی ہی کو اس نظام کیلئے دنیا کی سب سے پہلی لیبارٹری بنایا گیا۔