اقلیتوں کیلئے مختص 5 فیصد کوٹے میں صرف 2.8 فیصد افراد کو ملازمت دی گئی ہے، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق

اقلیتوں کیلئے مختص 5 فیصد کوٹے میں صرف 2.8 فیصد افراد کو ملازمت دی گئی ہے، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق
اسلام آباد : قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے تحت مسیحی سینیٹری ورکرز کے حقوق کی مہم شروع ہونے کے سلسلے میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا ہے کہ کمیشن سینیٹری ورکرز کی ملازمت کے اشتہارات میں امتیازی زبان کے استعمال کیخلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی متمنی ہے۔

رابعہ جویری نے کہا کہ اس طرح کے اشتہارات پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 27 کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے توثیق کئے گئے بین الاقوامی معاہدوں اور خاص طور پر امتیازی سلوک کے خاتمے پر انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 1 اور نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کے آرٹیکل 1-7 کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2009 میں پاکستان نے تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے عہدوں پر اقلیتوں کے لئے پانچ فیصد کوٹہ متعارف کرایا لیکن وفاقی حکومت کے ایمپلائیز کے سالانہ شماریاتی بلیٹن 18-2017 سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عرصے میں صرف 2.8 فیصد کو ملازمت دی گئی ۔

واضح رہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نےمسیحی سینیٹری ورکرز کے خلاف روا رکھے جانیوالے امتیازی سلوک سے متعلق آگاہی مہم شروع کردی ہے۔ یہ اقدام کمیشن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے اختیار کے تحت اٹھایا گیا ہے اور اس کیلئے کمیشن کو یورپی یونین کے اعانت شدہ پراجیکٹ حقوق پاکستان پروگرام کا اشتراک حاصل ہے ۔

اس مہم کے آغاز کا فیصلہ کمیشن کے چار سالہ اسٹریٹجک پلان پر متعلقین کی مشاورت کے دوران سول سوسائٹی تنظیموں کی رائے سے کیا گیا۔ تقریب میں سول سوسائٹی کے اراکین اور پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے کارکنان نے بھی شرکت کی۔

مہم کا آغاز سینیٹری ورکرز کو درپیش پیشہ ورانہ حفاظت اور روزگار کے چیلنجوں کو اجاگر کرنے کے مقصد سے بنائی گئی ایک فلم کی نمائش سے ہوا۔

اس فلم میں سرگودھا میں چند ماہ قبل جاں بحق ہونے والے دو مسیحی کارکنوں ندیم اور فیصل مسیح کے خاندانوں کی حالت زار کی عکس بندی کی گئی ہے ۔یہ دونوں مسیحی کارکن زہریلے گٹر کی صفائی کے دوران دھوئیں اور گیس کے باعث دم گھٹنے سے جاں بحق ہو گئے تھے۔

اس مہم میں پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا بھی شامل ہے جن پر سینیٹری ورکرز کےمسائل کے ارد گرد گھومتے پیغامات ، امتیازی اشتہارات پر آن لائن پوسٹیں بھی شامل ہیں۔اس مہم میں حکومت کے کوٹہ سسٹم کے تضادات کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے ۔

کمیشن کے ممبر اقلیتی منظور مسیح نے کہا کہ غیر آئینی اور امتیازی اشتہارات کو ختم کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے ملازمتوں میں اقلیتی کوٹہ کو صرف سینیٹری ورکرز اور ایک سے چار گریڈ تک کی آسامیوں تک محدود نہ کیا جائے بلکہ ہمیں تمام ملازمتوں پر حق دیا جائے ۔ منظور مسیح نے کہ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کسی صورت منظور نہیں ہے۔

رابعہ جویری نے مزید کہا کہ جن لوگوں کو ملازمت ملی ان میں سے اکثریت کو کم تنخواہ والے کام پر بھرتی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 2021 تک کل مسیحی ملازمین کی تعداد 29,692 ہے جبکہ پاکستان بھر میں بھرتی کے کیلئے مختلف گریڈز کی خالی اقلیتی آسامیاں ابھی تک خالی پڑی ہیں۔

کمیشن کی چیئرپرسن رابعہ جویری نے کہا کہ سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ حکومتی محکموں نے صفائی کی نوکریوں اور دیگر کم تنخواہوں والے کاموں کیلئے ملازمت کے اشتہارات کو صرف مسیحی یا دیگر 'غیر مسلموں' کے لئے مخصوص کر رکھا ہے جبکہ مسیحی پاکستان کی آبادی کا 1.6 فیصد ہیں تاہم عملہ صفائی میں انکی تعداد 80 فیصد سے زیادہ افراد قوت کی نمائندگی کرتی ہے۔

چیئرپرسن نے کہا کہ گٹروں کی صفائی کرتے ہوئے مرنے والے صفائی کے کارکنوں کی ایک بڑی اکثریت کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔ "2011-2021 کے درمیان، 65 فیصد سے زیادہ صفائی کے کارکنان جو گٹروں کی صفائی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے وہ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھتےتھے۔

کچھ دیگر حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ مسیحی سینیٹری ورکرز کا بے شمار طریقوں سے استحصال اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ میونسپل کارپوریشن کے ملازمین ہونے کے بجائے، انہیں اکثر 'یومیہ اجرت ' کے طور پر بھرتی کیا جاتا ہے اور مزدوری کے بنیادی حقوق نہیں دیئے جاتے اور انہیں مناسب پی پی ای یا ماسک نہیں دیا جاتا ہے۔

اور اکثر انہیں سیوریج سسٹم میں اترنے کے لئے اپنی شارٹس اتارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کارکنوں کو بچانے کے لئے کام کرنے والا ہنگامی عملہ اکثر سیوریج کے نظام میں جانے سے انکار کر دیتا ہے، جس سے کارکنوں کی اموات ہوتی ہیں ۔ کچھ رپورٹ شدہ واقعات ایسے بھی ہیں کہ کسی زخمی کارکن کو ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے انہیں ناپاک' ہیں اور گندگی سے لتھڑے ہوئے قرار دیکر علاج سے گریز کیا ۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔