عمران خان مارچ تک سروائیو کرگئے تو کچھ بھی کر سکتے ہیں، اس کے بعد گیم اپوزیشن کے ہاتھ سے نکل جائے گی

عمران خان مارچ تک سروائیو کرگئے تو کچھ بھی کر سکتے ہیں، اس کے بعد گیم اپوزیشن کے ہاتھ سے نکل جائے گی
سینئر صحافی نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اگر مارچ 2022ء تک اپنی حکومت کو سروائیو کروا گئے تو پھر وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ اس کے بعد اپوزیشن کے ہاتھ سے گیم ہاتھ سے نکل جائے گی۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلمشنٹ کا خیال ہے کہ فنانس بل اور سٹیٹ بینک ترمیمی بل قومی مفاد میں ہیں، اس لئے ان دونوں کا پاس ہونا بہت ضروری ہے۔ تاہم عمران خان کو اس بات احساس ہے کہ یہ فیصلہ ان کیلئے پاپولر نہیں، اس لئے وہ ان سے کترا رہے تھے۔ لیکن انھیں قومی مفاد میں یہ کرنا پڑ گیا۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب اپوزیشن کی سچویشن یہ ہے کہ انھیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ یہ بلز پاس ہوں جبکہ اس بات کا بھی احساس ہے کہ ایک بل میں ملکی سالمیت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے جبکہ دوسرے میں شدید مہنگائی اور بے روزگاری بڑھے گی۔ اس لئے اپوزیشن کی جانب سے طے کیا گیا کہ تھوڑا شور شرابہ ڈالیں گے لیکن ان بلوں کو پاس ہونے دیں گے۔
نجم سیٹھی نے کہا کہ یوٹرن صرف حکومت نہیں اپوزیشن بھی لیتی ہے، کیونکہ جب احتجاج کا وقت آتا ہے تو فوراً ٹھس ہو جاتے ہیں۔ اپوزیشن والے کسی کے اشاروں پر چل رہے ہیں یا انھیں خود پر اعتماد نہیں ہے۔ ان معاملات پر ان پر بہت سی نکتہ چینی ہو سکتی ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اس بات پر تو متحد ہے کہ عمران خان کو نکالنا ہے لیکن کیسے نکالنا ہے اور اس کے بعد کیا کرنا ہے اس پر ان کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان سب کے مفادات آپس میں نہیں ملتے۔
وزیراعظم عمران خان کے طرز حکومت پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری مڈل کلاس کی اکثریت نے انھیں ووٹ دیا تھا کیونکہ جس قسم کی وہ باتیں کرتے تھے اس نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ اس کے علاوہ تبدیلی کا نعرہ بہت ہی پراثر ثابت ہوا۔ تاہم ان کی کارکردگی تھوڑی سی بھی اچھی ہوتی تو لوگ ان سے مایوس نہ ہوتے۔ مگر انہوں نے پاکستانی تاریخ کی بدترین حکومت کی۔ لاکھ کہیں کہ یہ ہو گیا، وہ ہو گیا لیکن لوگ نہیں سنتے، ان کے پیٹ کٹ رہے ہیں۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت میں جو کرپشن ہو رہی ہے اس بارے میں کوئی بات نہیں کر رہا۔ قانون کی جو دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ایسا پہلے کبھی بھی نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب کی اب کوئی ساکھ نہیں رہی، اسٹیبلشمنٹ نے انھیں چھوڑ دیا جبکہ عوام ان سے شدید ناراض ہے۔ اگر عمران خان آرام سے گھر چلے گئے تو شاید دوبارہ موقع مل جائے لیکن اگر لڑائی جھگڑا کرکے گئے یا نکالے گئے تو دوبارہ ان کے اقتدار میں آنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔
راوی ریور پراجیکٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اتنا بڑا منصوبہ بنایا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی پلاننگ تو ضرور ہوگی جو ہمیں فی الحال نظر نہیں آ رہی۔ ان کی اس منصوبے کو لے کر یہ سوچ ہو سکتی ہے کہ دنیا کو دکھایا جائے کہ میں بھی ایک ایمپائر بلڈر ہوں۔ اگر ایوب خان صاحب اسلام آباد کی بنیاد رکھ سکتے تھے اور میاں نواز شریف موٹروے بنا سکتے تھے تو میں بھی ایسا کر سکتا ہوں کیونکہ ان کے حصے میں فی الحال صرف درخت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اچھا ایڈمنسٹریٹر لایا جائے تو پانچ سال کے اندر اندر سموگ سمیت لاہور کے تمام مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ لیکن عثمان بزدار جیسے بندے کو لایا گیا تو سب کچھ الٹا ہوگا۔