سینیٹ اجلاس سے یوسف رضا گیلانی غائب، مصطفیٰ نواز کھوکھر برہم، اپنی قیادت کی پالیسیوں پر سوال اٹھا دیئے

سینیٹ اجلاس سے یوسف رضا گیلانی غائب، مصطفیٰ نواز کھوکھر برہم، اپنی قیادت کی پالیسیوں پر سوال اٹھا دیئے
پیپلز پارٹی کے اہم رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سٹیٹ بینک ترمیمی بل کیلئے بلائے گئے سینیٹ اجلاس میں یوسف رضا گیلانی کے اچانک غائب ہونے پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے قیادت کی پالیسیوں پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام شاہ زیب خانزادہ میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی میرے لئے بہت قابل احترام ہیں۔ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ ان کی کابینہ میں مشیر بھی رہا ہوں لیکن معذرت کیساتھ ہمارے لئے لوگوں کو بار بار جواب دینا مشکل ہو جاتا ہے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ پچھلے اجلاس میں جب بل پیش ہوئے تو اس وقت شہباز شریف جبکہ آج ہماری جماعت کے سینئر ترین رہنما یوسف رضا گیلانی صاحب موجود ہی نہیں تھے۔



پیپلز پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ ہم لوگ روزانہ ٹیلی وژن پر آ کر میزبانوں کے سخت سوالات کا جواب دیتے ہیں۔ عوام کے سامنے ہمارے چہرے اور ہماری گفتگو ہوتی ہے۔ جب ہم خود ہی قائل نہیں ہو پا رہے تو کیسے عوام الناس کو بتائیں کہ واقعی ہم اس حکومت کو ہٹانے میں سنجیدہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے تو اپنی پارٹی کی قیادت کو مشورہ دے رکھا ہے کہ جو پوزیشن ہم نے دلاور خان سمیت بی اے پی کے لوگوں کے بارے میں لے رکھی ہے۔ اب ہمیں ان سے بڑے ادب وحترام سے کہنا چاہیے کہ وہ واپس دوبارہ حکومتی صفوں میں چلے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: واضح برتری کے باوجود اپوزیشن کو سٹیٹ بینک ترمیمی بل پر شکست، کون سے ممبران ایوان سے غائب تھے؟
خیال رہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کو واضح برتری کے باوجود ایک بار سٹیٹ بینک ترمیمی بل پر شکست کا سامنا ہوا ہے۔ حکومت کے اس وقت سینیٹ میں اراکین کی تعداد 42 جبکہ اپوزیشن کی تعداد 51 ہے۔
سینیٹر دلاور خان گروپ کے بھی سینیٹ میں 6 ممبران ہیں جنھوں نے آج کے بل پر حکومتی بنچوں کو ووٹ دیا۔ سینیٹ کے آج کے اجلاس میں حکومت کے پاس بھرپور حکمت عملی موجود تھی جبکہ اپوزیشن کے پاس کوئی حکمت عملی نظر نہیں آئی۔
حکومت کے شروع میں سینیٹ میں نمبرز پورے نہیں تھے جن کی وجہ سے انھوں نے بل ایوان میں پیش نہیں کیا اور چیئرمین سینیٹ نے اجلاس کو 30 منٹ تک ملتوی کردیا۔
حکومت کے ممبران جیسے ہی پورے ہوئے تو وزیر خزانہ نے سٹیٹ بینک ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا۔ چیئرمین سینیٹ نے بل پر گنتی کی تو اپوزیشن اور حکومت کے نمبر یکساں 43, 43 تھے لیکن چیئرمین سینیٹ نے اپنا ووٹ حکومت کے حق میں دیا جس پر اپوزیشن نے ہنگامہ کیا اور چیئرمین سینیٹ نے دوبارہ گنتی کرنے کے احکامات دئیے۔
ایوان میں دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب دوسری گنتی میں اپوزیشن کا ایک ووٹ مزید کم ہوا اور حکومت کو اپوزیشن کے 42 کے مقابلے میں 43 ووٹ ملے۔
نیا دور میڈیا کی جانب سے اکھٹے کی گئی تفصیلات کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کے بلوچستان سے منتخب سینیٹر عمر فاروق کاسی نامعلوم وجوہات کی بناء پر دوسری گنتی میں ایوان چھوڑ کر چلے گئے۔
سینیٹ کے آج کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی، جمیعت علمائے اسلام ف کے سینیٹر طلحہ محمود، مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد حسین سید، نزہت صادق، پیپلز پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر سکندر میندھرو، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر شفیق ترین، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر قاسم رانجھو اور نسیمہ احسان اجلاس سے غائب رہی۔
اس طرح اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود وینیٹ میں سٹیٹ بینک ترمیمی بل صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور ہوگیا۔ یوں حکومت منی بجٹ سمیت آئی ایم ایف کے جائزے کے لئے درکار دونوں بل منظور کرانے میں کامیاب رہی۔
اس سے قبل حکومت کو سٹیٹ بینک کا بل بدھ کو سینیٹ سے منظور کروانا تھا تاکہ آئی ایم ایف بورڈ 28 جنوری کو ہونے والے اپنے اجلاس میں چھٹے جائزے کی تکمیل پر غور کر سکے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس پر آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کی درخواست پر چھٹا جائزہ مکمل کرنے کا عمل موخر کردیا تھا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل چھ ارب ڈالر کے قرض پروگرام پر نظر ثانی کے لئے آئی ایم ایف بورڈ کی میٹنگ 12 جنوری کو ہونی تھی جسے پاکستان کی درخواست پر پیشگی اقدامات کے اطلاق کا وقت دینے کے لئے ری شیڈول کرکے 28 جنوری کیا گیا تھا۔
متنازع منی بجٹ اور سٹیٹ بنک ترمیمی بل دونوں کی منظوری اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ضروری تھی کہ ملک کی چھ ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کے چھٹے جائزے کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری مل جائے۔
سٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021ء مرکزی بینک کو مکمل خود مختار کرنے کے ساتھ حکومت کے مرکزی بینک سے قرضے کے حصول پر مکمل پابندی عائد کر دے گا، تاہم حکومت مارکیٹ ریٹ پر کمرشل بینکوں سے قرض لے سکے گی، جس سے کاروباری اشرافیہ کی ملکیت کے نجی بینکوں کو فائدہ ہوگا۔