عسکریت پسندوں کے سیکیورٹی فورسز پر حملے، کیا بلوچستان کے حالات کشیدہ ہیں؟

عسکریت پسندوں کے سیکیورٹی فورسز پر حملے، کیا بلوچستان کے حالات کشیدہ ہیں؟
گذشتہ رات بلوچستان کے علاقے نوشکی اور پنجگور میں سیکیورٹی فورسز کے دو کیمپوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے 12 جوان جاں بحق جبکہ جوابی کارروائی میں 9 عسکریت پسند مارے گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لیبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔

بلوچستان کے علیحدگی پسند تنظیم کے ترجمان جنید بلوچ نے میڈیا کو جاری کئے گئے ایک اعلامیے میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کی تنظیم کے مجید بریگیڈ کے مسلح جنگجوئوں نے سیکورٹی فورسز کے جوانوں کو یرغمال بنایا اور اس حملے میں 100 سے زائد سیکیورٹی فورسز کے جوان مارے گئے۔

تاہم فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے نے اس کی تردید کی ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ دہشتگردوں کی جانب سے کئے گئے حملوں کو پسپا کیا گیا ہے۔ بلوچستان کے مشیر داخلہ نے میڈیا کو جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ دہشتگردی کے دو واقعات میں سیکیورٹی فورسز کے 12 جوان شہید ہو گئے ہیں۔

بلوچستان میں تعینات سیکیورٹی کے ایک افسر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد حالات کشیدہ ہیں اور سیکیورٹی فورسز کا امن وامان کو یقینی بنانے کے لئے سرچ آپریشن جاری ہے۔

ان کے مطابق باقاعدہ کسی کرفیو کے احکامات جاری نہیں کئے گئے ہیں لیکن لوگوں کی حفاظت کی خاطر ان کو گھروں پر رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔

سیکیورٹی فورسز کے افسر کے مطابق جیسے ہی سرچ آپریشن مکمل ہوگا اور علاقے کو کلئیر کیا جائے گا تو زندگی دوبارہ معمول پر آ جائے گی۔

ان کے مطابق یہ حملے بلوچستان کے مغربی اور جنوبی اضلاع میں پیش آئے اور جتنے منظم منصوبہ بندی کے ساتھ یہ حملے کئے گئے تھے، اس میں بیرونی طاقتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

کیا اس حملے میں علیحدگی پسند تنظیم کا کوئی کمانڈر مارا گیا ہے؟

بلوچستان لبریشن آرمی کے ایک عہدیدار نے نیا دور میڈیا کو تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے میں ایک اہم کمانڈر میران جمالدینی بھی مارے گئے ہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ نوشکی اور پنجگور میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران 13 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق گذشتہ رات دہشت گرد حملے پسپا کرنے کے بعد سکیورٹی فورسز نے کلیئرنس آپریشن کیا۔ کلیئرنس آپریشن مفرور دہشت گردوں کی تلاش کے لئے تھا۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق نوشکی میں اب تک مارے جانے والے شدت پسندوں کی تعداد 9 ہے جبکہ ان کے خلاف آپریشن کے دوران ایک فوجی افسر سمیت چار فوجیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔

جبکہ پنجگور میں ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی تعداد 4 ہے جبکہ ان سے مقابلے میں 3 فوجیوں کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ 4 فوجی زخمی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھاگنے والے شدت پسندوں کو پکڑنے کے لئے اب بھی آپریشن جاری ہے اور 4 سے 5 شدت پسند سیکیورٹی فورسز کے گھیرے میں ہیں۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں کچھ ہفتوں سے حالات کشیدہ ہیں اور علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے مسلسل سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

بلوچستان کے علاقے کیچ میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر گذشتہ ہفتے ہونے والے حملے میں سیکیورٹی فورسز کے 10 جوان شہید ہو گئے تھے۔

نوشکی کے ایک رہائشی نے ٹیلیفون پر نیا دور میڈیا کو بتایا کہ گذشتہ رات دھماکوں کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جو دن 3 بجے تک جاری رہا۔ ان کے مطابق صبح مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے اعلانات ہوئے کہ نوشکی میں امن وامان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر شہری اپنے گھروں میں رہیں اور غیر ضروری نقل وحمل سے گریز کریں۔ ان کے مطابق کرفیو تو نافذ نہیں تھا بس لوگ ڈر کے مارے گھروں سے باہر نکل رہے تھے، مگر ابھی حالات کچھ حد تک معمول پر آگئے ہیں۔

آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ان کارروائیوں میں ملوث شدت پسندوں کے افغانستان اور انڈیا میں موجود ہینڈلرز کے درمیان کمیونی کیشن پکڑی ہے۔

بلوچستان کے علاقے پنجگور کے ایک مقامی رہائشی جو اسلام آباد میں رہائش پذیر ہے نے نیا دور میڈیا کو تصدیق کی کہ علاقے میں حملوں کے بعد حالات کشیدہ ہیں اور کئی گھنٹے بعد ان کا خاندان والوں سے رابطہ ہوا ہے۔

ان کے مطابق سیکیورٹی فورسز کا سرچ آپریشن تاحال جاری ہے اور علاقے میں دن گئے تک فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں لیکن سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تاحال علاقے میں موجود ہے، مگر ہیلی کاپٹروں کے آنے جانے کا سلسلہ بند ہوا ہے۔

حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی بلوچ لبریشن آرمی کیا ہے؟

بی بی سی اردو کے مطابق 1970 کی دہائی کے اوائل میں یہ تنظیم وجود میں آئی تھی جب سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی تھی۔

تاہم فوجی آمر ضیاءالحق کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے نتیجے میں بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کے نتیجے میں مسلح بغاوت کے خاتمے کے بعد بی ایل اے بھی پس منظر میں چلی گئی۔

پھر سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کی گرفتاری کے بعد سنہ 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

سنہ 2006 میں حکومتِ پاکستان نے بلوچ لبریشن آرمی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا اور حکام کی جانب سے نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ بالاچ مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جاتا رہا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔