برطانوی پولیس نے جلاوطن پاکستانیوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کردی

برطانوی پولیس نے جلاوطن پاکستانیوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کردی
برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے پاکستانیوں کو برطانوی پولیس فورسز نے ان کی جانوں کو لاحق خطرات سے خبردار کیا ہے اور انہیں اپنا میل جول محدود رکھنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ انکشافات برطانوی اخبار دی گارڈین میں رواں ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں سامنے آئے۔

تفصیلات کے مطابق یہ ہدایات برطانوی پولیس کے معاون گروپ 'کاؤنٹر ٹیررازم پولیسنگ' کی جانب سے جاری کی گئی ہیں، جو دہشت گردی کی سرگرمیوں کو روکنے اور تحقیقات میں مدد کے لیے برطانوی انٹیلی جنس اہلکاروں کے ساتھ کام کرتا ہے۔

یہ پیشرفت اس واقعے سےصرف ایک ہفتے بعد سامنے آئی جب ایک جیوری نے پاکستانی نژاد 31 سالہ برطانوی شخص محمد گوہر خان کو مجرم قرار دیا، جس نے ہالینڈ میں مقیم ایک پاکستانی خود ساختہ جلاوطن بلاگر کو ایک معاہدے کے تحت قتل کرنے کی سازش پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

بلاگر اور ایکٹوسٹ وقاص احمد گورایا کی تصویر اور پتا پاکستان میں مقیم ایک مڈل مین نے فراہم کیا تھا جس کی شناخت ٹرائل کے دوران 'مزمل' کے نام سے ہوئی۔

پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ مزمل کی شناخت اور اس کے ٹھکانے کے بارے میں تفتیش تاحال جاری ہے۔

برطانوی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ مقدمے کی سماعت سے قبل کاؤنٹر ٹیررازم پولیسنگ کے افسران نے پاکستانی سیاسی مبصر راشد مراد کو خبردار کیا کہ وہ اپنی سیکیورٹی کا جائزہ لیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس نے پہلے ہی ان کے گھر پر ایک ہنگامی الارم اور سی سی ٹی وی نصب کر رکھا ہے اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سیکیورٹی آفس سے ذاتی سیکیورٹی پر رہنمائی بھی فراہم کی گئی ہے۔

راشد مراد نے بتایا کہ 2 پولیس افسران گزشتہ سال ان کے گھر آئے اور انہیں بتایا کہ انہوں نے ایک رابطے کی اطلاع ملی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ لوگ انہیں نقصان پہنچانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

راشد مراد نے کہا کہ پولیس نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ یہ کون لوگ ہیں لیکن اشارہ دیا کہ ان کا تعلق پاکستانی حکام سے ہے۔

رپورٹ میں وکیل فضل خان کا بھی ذکر کیا گیا جنہیں پاکستانی حکام کا ایک اور مبینہ ہدف قرار دیا گیا۔

فضل خان نے بتایا کہ پولیس کی کاؤنٹڑ ٹیررازم کمانڈ کے افسران نے ان سے کہا کہ اگر وہ لندن سے باہر سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو برطانیہ کی دیگر پولیس فورسز کو مطلع کریں۔

فضل خان نے دی گارجین کو بتایا کہ برطانیہ میں ایک شدید خطرہ موجود ہے، لندن، برمنگھم اور شیفیلڈ جیسے شہروں میں بڑی ایشیائی کمیونٹیز ہیں جہاں (پاکستانی حکام کے) پے رول پر لوگ موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مجھ سے کہا گیا کہ میں ادھر ادھر نہ جاؤں، شہر نہ چھوڑوں اور پولیس کو اپنے رابطوں کی تفصیلات فراہم کروں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کو بھی ان کی جان کو لاحق خطرات سے خبردار کیا جاچکا ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک قریبی وکیل نے انہیں بتایا کہ انہیں نشانہ بنانے کے لیے جو طریقہ استعمال کیا جاسکتا ہے اس میں برطانیہ میں مقیم منشیات کے پاکستانی گروہ شامل ہوسکتے ہیں۔

عائشہ صدیقہ نے برطانوی حکومت پر زور دیا کہ وہ وہ گوہر خان کیس میں نامزد ایک نامعلوم شخص کی بھی شناخت کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں جسے مڈل مین مزمل کا 'باس' کہا جاتا ہے، جوکہ ممکنہ طو پر وقاص گورایا کے قتل کی سازش کے پیچھے ہے۔

پشتون حقوق کے لیے کام کرنے والے زر علی خان آفریدی اغوا کی کوشش کے بعد بھاگ کر ہالینڈ چلے گئے تھے، رپورٹ کے مطابق انہیں برطانوی نمبر سے جان لیوا دھمکیوں کی کال موصول ہوئی۔

فرانس میں موجود صحافی یونس خان نے بتایا کہ انہیں دسمبر میں فرانسیسی حکام کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی تھی جس میں انہیں لیک ہونے والی آڈیو فائلز سے آگاہ کیا گیا۔

ان آڈیو فائلز میں پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت کی جانب سے یورپ میں پاکستانی کمیونٹی کو یونس خان پر حملہ کرنے کے لیے کہا جارہا تھا۔

ریکارڈنگ میں ایک شخص کہتا ہے کہ 'یہ پاکستان کی عزت کی بات ہے، اگر آپ اپنے والدین کی جائز اولاد ہیں تو جائیں اور اس کا احتساب کریں۔'

پاکستانی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے، حکومت کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ جو لوگ پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بلاوجہ بدنام کر رہے ہیں اور پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں وہ یہ سب اپنے یا اپنی مالی مدد کرنے والوں کے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کررہے ہیں۔