حکومت نے ڈاکٹر طارق بنوری کی بطور چیئرمین ایچ ای سی بحالی عدالت میں چیلنج کردی

حکومت نے ڈاکٹر طارق بنوری کی بطور چیئرمین ایچ ای سی بحالی عدالت میں چیلنج کردی
وفاقی حکومت نے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے عہدے پر ڈاکٹر طارق جاوید بنوری کی بحالی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) چوہدری عامر رحمٰن کے ذریعے دائر درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کی جانب سے 18 جنوری 2022 کو ڈاکٹر طارق جاوید بنوری کو عہدے پر بحال کرنے کے لیے جاری مختصر حکم نامے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

ڈاکٹر طارق جاوید بنوری کو 2018 میں 4 سالہ مدت کے لیے ایچ ای سی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا اور انہیں رواں سال مئی میں ریٹائر ہونا تھا۔

تاہم ایچ ای سی آرڈیننس 2002 میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے چند ترامیم کی بنیاد پر مارچ 2021 میں انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، جس نے اس مدت کو 2 سال تک کم کر دیا تھا۔

بعد میں ان آرڈیننسز کو بل کی صورت میں پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا گیا، پارلیمنٹ اور صدر کی منظوری کے بعد اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ترمیمی) ایکٹ 2021 کے طور پر نافذ کیا گیا۔

وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ آرڈیننسز میں ترامیم واضح طور پر ماضی کے لیے مؤثر ہونے کی منشا کے تحت کی گئی تھیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا 18 جنوری کا مختصر حکم ناجائز، غیر قانونی اور دائرہ اختیار سے باہر تھا لہٰذا اسے معطل کیا جانا چاہیے۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ واضح اور غیر مبہم ترامیم کے بعد کسی بھی ایسے حق کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا جو قانون کے خلاف ہو۔

درخواست میں کہا گیا کہ مقننہ کو کسی عہدے کی مدت کم کرنے کا پورا اختیار ہے، اس لیے مقننہ کے اختیارات میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جا سکتی۔

آرڈیننس نے واضح الفاظ میں ایچ ای سی آرڈیننس 2002 کی شقوں میں چیئرمین ایچ ای سی کی مدت ملازمت کے حوالے سے ترمیم کی اور قانوناً اس مدت کو کم کر کے 2 سال کر دیا۔

لہٰذا 2021 کے آرڈیننس نو اور دس کے نفاذ کے بعد چیئرمین ایچ ای سی قانوناً اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے اور ان کی برطرفی 26 مارچ 2021 اور 5 اپریل 2021 کے نوٹی فکیشن کے تحت نہیں کی گئی، جو کہ محض اس کا اعلان تھے اور وزارتوں کی جانب سے قانونی فیصلے کی تائید کی غرض سے جاری کیے گئے تھے۔

درخواست میں کہا گیا کہ اس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون میں غلطی کی کیونکہ جاری کیا گیا نوٹی فکیشن ترمیمی آرڈیننس کے مطابق قانونی نہیں ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت معقول درجہ بندی کی اجازت ہے جو شہریوں کے درمیان مساوات کو یقینی بناتا ہے۔

درخواست میں دلیل دی گئی کہ درجہ بندی کو درست ثابت کرنے کے لیے اس کی معقول بنیاد اور حقیقی فرق موجود ہونا چاہیے۔

درخواست میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں چیئرمین ایچ ای سی اور کمیشن کے اراکین مکمل طور پر علیحدہ تھے۔

درخواست کے مطابق آرڈیننس 2002 کے ذریعے ان کی علیحدہ علیحدہ تعریف کی گئی ہے، ان کے تقرر کا طریقہ مختلف ہے، یہاں تک کہ قانون بھی ان کی حیثیت میں فرق کرتا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ چیئرمین بذات خود ایک فریق ہے، اس لیے چیئرمین کی مدت ملازمت پر اثر انداز ہونے کے لیے بنایا گیا قانون ایک درست قانون ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ حکومت اس مختصر حکم کی وجوہات طلب کرنے کے لیے مزید اور اضافی بنیادوں پر زور دینے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔