ق لیگ اور ایم کیو ایم ایک فون کال کی مار، ابھی سگنل نہیں ملا، مجال ہی نہیں اتنا سوچ بچار کرتیں

ق لیگ اور ایم کیو ایم ایک فون کال کی مار، ابھی سگنل نہیں ملا، مجال ہی نہیں اتنا سوچ بچار کرتیں
سینئر صحافی رضا رومی نے کہا ہے کہ ہمیں اس چیز کا اداراک ہونا چاہیے کہ دوسری جانب معاملات ابھی تک واضح نہیں ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو مسلم لیگ ق یا ایم کیو ایم کی کیا مجال کہ وہ اتنی سوچ بچار یا ملاقاتیں کرتے۔ دونوں جماعتیں تو ایک فون کال یا یوں کہنا چاہیے کہ واٹس ایپ میسج کی مار ہیں۔

ملک میں جاری سیاسی کھیل اور ملاقاتوں پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے رضا رومی کا کہنا تھا کہ دوسری جانب یہ سوچ موجود ہے کہ عمران خان کیا کرتے ہیں۔ وہ جلسوں کے اعلان کی صورت میں اپنا ایک پتہ تو شو کر چکے ہیں۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ اگر مجھے سڑکوں پر بھیجا تو میں اور زیادہ خطرناک ہو جائوں گا۔ اب ان کا 'لاڈلا' بھی ایسی بات کرے گا تو بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا کیونکہ نواز شریف نے گوجرانوالہ کے جلسے سے پہلے ہی ''کٹا'' کھولا ہوا ہے اور زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کر چکے ہیں۔ ایسا ہوا تو پھر تمام سیاسی قوتیں ایک طرف اور پاکستان میں طاقت کے مراکز دوسری جانب کھڑے ہو جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سیاسی صورتحال بہت کشیدہ ہو چکی ہے۔ اس لئے کوئی راستے نکالنے یا لین دین سے معاملات حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ معاملات کو فروری میں ہی طے کرنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ مارچ تک جانے کے بعد سارے نقصانات ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے 27 فروری کی تاریخ بڑی سوچ سمجھ کر دی ہے۔ جو ہونا ہے اس سے پہلے پہلے ہی ہونا ہے۔ جس دن سگنل آئے گا تو سارے معاملات ایک فون کال یا میسج سے طے ہو جانے ہیں۔

مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کو اپنی عوامی مقبولیت پر اعتبار ہے تو اسمبلیاں توڑیں اور انتخابات کا اعلان کردیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی ایک ہی دن لانگ مارچ کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔ اس میں تمام اپوزیشن جماعتیں شامل ہونگی۔ اسلام آباد پہنچے کے بعد تحریک عدم اعتماد بھی پیش کر دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ چودھری پرویز الہیٰ نے ماضی میں کہا تھا کہ ہم مشرف کو 10 بار وردی میں صدر بنائیں گے۔ اسی طرح وہ عمران خان کے بارے میں بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم ان کیخلاف آنے والی ہر عدم اعتماد کو ناکام بنائیں گے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کہا۔

مزمل سہروردی نے انکشاف کیا کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی۔ اس وقت سردار ایاز صادق نے چودھری پرویز الہیٰ کو فون کیا کہ ہم اور آپ مل کر حکومت بنا لیتے ہیں۔ انہوں نے یہ پیغام چودھری شجاعت کو پہنچایا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بندوں سے فون کراتے ہیں، بات کرنی ہے تو خود کیوں نہیں کرتے۔ یہ پیغام شریف فیملی تک پہنچایا گیا تو ان کی جانب سے کہا گیا کہ چودھری صاحب وقت بتائیں، شہباز شریف ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس ملاقات کے دوران پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ لیکن پرویز الہیٰ میں اس وقت شہباز شریف سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہی حال ایم کیو ایم کا تھا۔ ان ملاقاتوں کی ساڑھے تین سال پاکستان میں کسی کو اجازت ہی نہیں تھی۔ سیاستدانوں کو یہ آزادی نومبر کے بعد ملی ہے۔

رائے شاہنواز کا اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لاہور میں سیاسی ماحول گرم ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم رہنمائوں کی شہباز شریف کے ساتھ ملاقاتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس پوری کہانی کے اندر آصف زرداری کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ جن لوگوں کو بھی مل رہے ہیں ان کیساتھ وہ فارمولا شیئر نہیں کر رہے جو ن لیگی قیادت کیساتھ طے کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ چودھری برادران کیساتھ رابطوں کا سلسلہ نواز شریف کی ٹیلی فون کال سے شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے لندن سے ٹیلی فون کرکے چودھری شجاعت کی خیریت دریافت کی تھی۔ اس لئے شہباز شریف کی لیگی قیادت سے متوقع ملاقات بھی اسی کی کڑی ہے جس کی داغ بیل نواز شریف نے ڈال دی تھی۔ بتایا جا رہا ہے کہ سب سے سپیکر قومی اسمبلی کو ہٹانے کا معاملہ طے کیا  جائے گا جبکہ اس کے بعد پنجاب کی باری آئے گی۔ ق لیگ کو شیئر دینے کے معاملات طے کئے جا چکے ہیں۔

عامر وسیم کا کہنا تھا کہ چودھری برادران ہمیشہ پکا پکایا کھانے کے ہی عادی ہیں۔ ان کی طرز سیاست سے سب واقف ہیں۔ اس ملک میں جو ادارہ پالیسیاں بناتا ہے، اب سب کی نگاہیں اس کی جانب لگی ہوئی ہیں۔ سب ہی اشارے کے منتظر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس میں نواز شریف کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ ن لیگی قیادت تحریک عدم اعتماد کی طرف آتی ہی نہیں تھی۔ پی ڈی ایم میں اختلاف بھی اسی وجہ سے ہوا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ سینیٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود ہم صادق سنجرانی کیخلاف ناکام ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم اب ن لیگی قیادت کا تحریک عدم اعتماد پر بات کرنا بڑا ہی معنی خیز ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ انھیں اشارہ مل گیا ہے۔ اپریل کے پہلے ہفتے اگر کچھ نہ ہو سکا تو بات آگے نکل جائے گی۔ عمران خان کیخلاف کسی بھی سیاسی مہم جوئی کی ناکامی اپوزیشن افورڈ نہیں کرسکے گی۔