فیصل واوڈا نااہلی کیس: کیا پی ٹی آئی کا ایمانداری اور شفافیت کا بیانیہ زمین بوس ہوگیا؟

فیصل واوڈا نااہلی کیس: کیا پی ٹی آئی کا ایمانداری اور شفافیت کا بیانیہ زمین بوس ہوگیا؟
الیکشن کمیشن نے بالاخر دوہری شہریت کیس میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل واوڈا کو نااہل قرار دیدیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصل واوڈا نااہلی کیس کا فیصلہ سنایا۔
الیکشن کمیشن کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ جوابدہ نے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت غلط حلف نامہ جمع کرایا۔ الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کے بطور سینیٹر کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا حکم دیا اور کہا کہ وہ فیصلے سے متعلق سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں مزید کہا کہ فیصل واوڈا 2 ماہ میں تمام مالی مفادات اور مراعات واپس کریں۔ واوڈا نے جرم چھپانے کے لئے قومی اسمبلی سے استعفی دیا۔
فیصل واوڈا دوہری شہریت کے باوجود ایوان کے ممبر کیسے رہے؟
فیصل واوڈا نے دوہری شہریت چھپاتے ہوئے کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور ممبر منتخب ہوئے۔ الیکشن کمیشن میں زیر التوا نااہلی کیس کے مدنظر انھوں نے سینیٹ کا الیکشن لڑا اور 2021 میں سینیٹر منتخب ہوگئے۔
الیکشن اور پارلیمانی امور کے ماہر قریش خٹک نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ہماری عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں بہت نقائص اور کمزوریاں ہے کہ ایک شخص دوہری شہریت چھپانے کے باوجود ناصرف قومی اسمبلی کے ممبر بنے بلکہ اس کے بعد وفاقی کابینہ اور پھر دوبارہ سینیٹ کے ممبر منتخب ہوگئے۔
قریش خٹک کے مطابق یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ ایک ایسا شخص وزیر بنے جو باہر کا شہری تھا اور انھوں نے ریاستی دستاویزات تک رسائی حاصل کی۔
ان کے مطابق نااہلی کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو اس وقت کرنا چاہیے تھا، جب نامزدگیوں کا وقت تھا اور فائنل امیدواروں کی لسٹیں فائنل کرنی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ الیکشن کمیشن میں بہت سی کمزوریاں ہیں۔
کیا الیکشن کمیشن پر اس کیس میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
قریش خٹک اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس وقت الیکشن کمیشن امیدواروں کی کاغذات نامزدگیوں کو حتمی شکل دے رہا تھا تو فیصل واوڈا دہری شہریت کے باوجود کیسے اس مرحلے سے گزر گئے اور الیکشن لڑنے میں کامیاب ہوئے اس پر انکوائری ہونی چاہیے۔
کیا فیصل واوڈا کو سپریم کورٹ میں ریلیف مل سکتا ہے؟
قانونی امور کے ماہر اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے چیئرمین بیرسٹر علی ظفر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اس کیس میں حقائق کو دیکھنا ہے کہ اگر فیصل واوڈا نے الیکشن کمیشن کو کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت دوہری شہریت ختم کی تھی تو پھر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کرسکتی ہے لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا ہو اور وہ اس وقت دوہری شہریت رکھتے تھے تو پھر سپریم کورٹ سے کوئی ریلیف نہیں ملے گی اور اس پر سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے موجود ہیں۔
ان کے مطابق لیکن فیصل واوڈا کے پاس قانونی آپشن موجود ہے اور وہ سپریم کورٹ میں اپنا موقف دے سکتے ہیں لیکن اس کا سارا دارومدار الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کرتے وقت حقائق پر ہے۔ اگر اس کے پاس اس وقت صرف پاکستانی شہریت تھی تو پھر وہ بحال ہو جائینگے۔
قریش خٹک صاحب کہتے ہیں کہ اگر اس ملک میں کسی کے پاس وسائل ہیں تو وہ سپریم کورٹ میں اچھا وکیل کر سکتے ہیں اور ان کے حق میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اگر فیصلہ حق میں نہیں بھی آیا تو یہ کیس دو تین سال تک چلتا رہیگا۔
کیا فیصل واوڈا نااہلی کیس کا پاکستان تحریک انصاف کی سیاست پر اثر پڑے گا؟
گذشتہ 20 سال سے پارلیمانی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار اعجاز احمد سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف اور عمران خان نے گذشتہ بیس سالوں میں ایمانداری، میرٹ اور شفافیت کا جو بیانیہ بنایا تھا وہ زمین بوس ہو گیا ہے جو پی ٹی آئی اور عمران خان کی سیاست کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگا۔
اعجاز احمد مزید کہتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت جس شفافیت اور ایمان داری کی بات کر رہی تھی۔ وہ بیانیہ تو مختلف سکینڈلز اور میرٹ کی خلاف ورزیوں پر زمین بوس ہو چکا ہے لیکن اب ان کے جماعت کے ایک سابق وزیر اور موجودہ سینیٹر ملک کی عدالتوں، عوام اور میڈیا سے اپنی دوہری شہریت چھپاتا رہا۔ اب الیکشن کمیشن نے بالاخر ان کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
ان کے مطابق اگر پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان الیکشن میں عوام سے ووٹ مانگنے جائے گی تو ان کے پاس ایمانداری اور شفافیت کا کوئی جواز باقی نہیں رہا کہ وہ عوام سے اس پر ووٹ مانگے۔ باقی اس جماعت کے منشور میں کوئی چیز نہیں کہ عوام کو اپنی طرف راغب کرسکیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔