نور مقدم قتل کیس، کیا مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے خلاف شواہد کمزور ہیں؟

نور مقدم قتل کیس، کیا مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے خلاف شواہد کمزور ہیں؟
اسلام آباد میں قتل ہونے والی نور مقدم قتل کیس میں گذشتہ روز اس وقت نیا موڑ آیا جب مرکزی ملزم ظاہر جعفر قتل کے الزام سے ہی مکر گیا۔ ظاہر جعفر کی جانب سے وکیل نے سوالنامے کے جوابات لکھوائے اور بتایا کہ 20 جولائی کو نور مقدم نے اپنے دوستوں کو ڈرگ پارٹی کے لئے میرے گھر بلایا تھا۔

ظاہر جعفر نے موقف اختیار کیا کہ نور مقدم نے مجھے کہا کہ ڈرگ کی پارٹی رکھو لیکن میں نے انکار کر دیا۔ 18 جولائی کو مقتولہ منشیات کی بڑی مقدار کے ساتھ میرے گھر آئی۔

جوابات میں مرکزی ملزم نے یہ بھی کہا کہ نور مقدم نے ڈرگ پارٹی کے لیے اصرار کیا اور اپنے دوستوں کو بھی بلایا۔ ظاہر جعفر نے جوابات میں کہا کہ میں گھر میں اکیلا تھا، والدین اور دیگر خاندان کے افراد عید کے لئے کراچی میں تھے۔ گھنٹوں بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو اپنے لاؤنج میں بندھا ہوا پایا۔

مرکزی ملزم نے مزید کہا کہ کچھ وقت کے بعد باوردی پولیس اور سول کپڑوں میں افراد نے ریسکیو کیا۔ جب مجھے ریسکیو کیا گیا تو معلوم ہوا نور مقدم کو ڈرگ پارٹی میں شریک یا کسی اور نے قتل کر دیا ہے۔

گذشتہ کئی سالوں سے عدالتی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی ثاقب بشیر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے حوالے سے جو پیشگوئی میڈیا میں رپورٹ ہوئی تھی کہ 164 کے بیان میں وہ اعتراف جرم کر چکے ہیں اور بعد میں مکر گئے، حقیقت میں یہ درست نہیں کیونکہ 164 کا بیان ملزم نے دیا ہی نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کورٹ کے اب تک کے ریکارڈ پر ملزم کا قانونی طور پر کوئی "اعتراف جرم" موجود نہیں ہے۔ ان کے مطابق اگر وہ اعتراف جرم عدالت میں کر لیتے اور معافی مانگتے تو پھر ٹرائل نہیں ہونی تھی اور اسی وقت سزا ہو جاتی۔

ثاقب بشیر نے کہا کہ گذشتہ ایک دہائی سے میں عدالت کی رپورٹنگ کر رہا ہوں۔ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ظاہر جعفر کے خلاف اتنے شواہد موجود ہیں کہ اسے کو سزا ہوجائے گی۔

ایک سوال کے جواب انھوں نے کہا کہ ظاہر جعفر کے وکلا کی جانب سے چھوٹے چھوٹے نکتوں پر دلائل دئیے جاتے ہیں مگر دوسری جانب اگر آپ ثبوتوں کا مشاہدہ کریں تو ان کے کپڑوں اور چاقو پر خون کے نشانات، فنگر پرنٹس، سی سی ٹی وی فوٹیجز سمیت ان کی وہاں موجودگی سمیت کئی ایسے ثبوت آن ریکارڈ موجود ہیں جو ظاہر جعفر کو سزا دینے کیلئے کافی ہیں۔

نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور ایڈوکیٹ نے کیس کے حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر کیس کو دیکھا جائے تو نور مقدم جس کمرے میں قتل ہوئی تھی، اس کمرے میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی موجودگی کا اقرار کرنا اس کیس میں سزا کے لئے کافی ہے۔

شاہ خاور ایڈوکیٹ کے مطابق کوئی ملزم یہ نہیں کہتا کہ انھوں نے قتل کیا ہے اور اگر اس اقرار پر عدالتیں فیصلے کریں تو پھر تو تمام ملزم بری ہوجائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ تھراپی ورکرز نے جو بیان دیا کہ ظاہر جعفر کے والد کے کہنے پر ہم وہاں گئے اور انھوں نے ہم پر بھی حملہ کیا اور وہاں نور مقدم کی لاش پڑی تھی۔ یہ دو شواہد بھی کافی ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک مضبوط کیس ہے اور ظاہر جعفر کو ہر حال میں سزا ہوگی۔

سینیئر ایڈوکیٹ حسنین حیدر تہیم نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ عدالت ثبوتوں کو دیکھتی ہے اور میڈیا رپورٹس پر کیسز نہیں چلتے۔ اگر ایسا ہوگا تو پھر تو عدالتی فیصلے میڈیا کے خبروں پر ہوگی۔

ان کے مطابق جو قانونی اور شہادت کے دستاویزات عدالت میں جمع ہوتے ہیں۔ اسی کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اگر فوجداری قوانین کے مطابق ثبوت ٹھوس ہے تو اس کیس میں مرکزی ملزم کو ضرور سزا ہوگی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔