طلبہ یونین کی بحالی کیلئے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کا دھرنا تین روز سے جاری

طلبہ یونین کی بحالی کیلئے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کا دھرنا تین روز سے جاری
پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو نے طلبہ یونین کی بحالی، فیسوں میں کمی اور 8 دیگر مطالبات کے حق میں 9 فروری کو پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا تھا جس کے فوری بعد دھرنا دے دیا گیا۔

ترقی پسند طلبہ تنظیم پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کے لئے دیا گیا دھرنا تیسرے روز میں داخل ہو چکا ہے مگر ایوان اقتدار سے کسی بھی نمائندے نے آ کر نہ ان سے کوئی بات کی اور نہ ہی مطالبات سنے۔

شدید سردی کے حالات میں طلبہ گزشتہ تین روز سے پنجاب اسمبلی کے سامنے بیٹھے ہیں، دھرنے کے دوران طلبہ کی جانب سے سٹڈی سرکلز، مزاحمتی ترانے اور کتب بینی بھی کی جاتی ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے مطالبات کو سنجیدہ نہ لیا گیا تو وہ مرکزی شاہراہ بند کرنے سمیت بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔

یہ دھرنا 9 فروری کو پنجاب اسمبلی کے سامنے شروع ہوا تھا جس میں گلگت بلتستان کے ترقی پسند رہنماؤں بابا جان اور شبیر میار، حقوق خلق موومنٹ کے رہنماؤں فاروق طارق، عمار علی جان، ایڈووکیٹ حیدر بٹ اور مزمل خان، کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ہزارہ رہنما ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر اور پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے سابق صدر محسن ابدالی اور بانی رکن عروج اورنگزیب سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔

تعلیم، اظہار اور دیگر ضروریات کے نعروں سے مظاہرے کا آغاز کیا گیا جس کے بعد پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے نائب صدر علی رضا نے مظاہرے اور دھرنے کے مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ آج کے دن 1984 کو ضیاالحق نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی تھی آج کے دن اکٹھے ہونے کا مقصد آمرایت اور اس کے اقدامات کو رد کرنا ہے۔

https://twitter.com/PSCollective_/status/1491711553611223040

انھوں نے کہا کہ طلبہ یونین پر پابندی کی وجہ سے نا صرف ہمارا ملک مسلسل سیاسی قیادت سے محروم رہا ہے بلکہ جامعہ میں طلبہ کے مسائل بھی انتہائی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ایک طرف نمائندگی نہ ہونے کے باعث جہاں طلبہ کو کیمپس پر صاف پانی، علاج، ہراسگی کیمیٹیوں اور ٹرانسپورٹ جیسی سہولیات حاصل نہیں وہیں، اس منظم آواز کی کمی کی وجہ سے تعلیم کی نجکاری معمول بن چکی ہے۔ ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے طلبہ یونین ضروری ہے اور اسی کے لیے آج سڑکوں پر ہیں۔

https://twitter.com/PSCollective_/status/1491100517430345730

حقوق خلق موومنٹ کے رہنما فاروق طارق کا کہنا تھا کہ میں طلبہ میں وہی جذبہ دیکھ رہا ہوں جو ستر اور اسی کی دہائی میں طلبہ کی مزاحمت میں نظر آتا تھا اور مجھے یقین ہے کہ یہ طلبہ اپنا حق لے کر رہیں گے۔

پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کی بانی رکن عروج اورنگزیب نے آزادی اظہار پر پابندیوں اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نظام میں جمہوریت کی بات تو ہوتی ہے لیکن عام طبقے کے لیے اس نظام میں سیاست کرنا ناممکن ہے۔ طلبہ یونین امیروں کے اس سرکل کو توڑنے کا ایک ذریعہ تھی جسے ختم کر کے عام طبقے کے سیاست میں معمولی حصے کو بھی ختم کر دیا گیا۔

https://twitter.com/ammaralijan/status/1492084532476059648

گلگت بلتستان کے رہنما بابا جان نے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو اور دیگر ترقی پسند طلبہ کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص آپ طلبہ ہی ہیں جو اشرافیہ کے جبر کے خلاف منظم مزاحمت کا رستہ ہموار کر رہے ہیں ۔

طلبہ یونین بحالی دھرنا کے مطالبات

طلبہ یونین پر عائد پابندی فی الفور ختم کی جائے۔
2۔ یونیورسٹی داخلے کے وقت طلبہ سے سیاست نہ کرنے کا حلف نامہ آئین کے آرٹیکل 17 سے متصادم ہے اسے فوری ختم کیا جائے۔
طلبہ کو سٹوڈنٹ کارڈ پر ترجیحی بنیادوں پہ مفت معیاری علاج کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
طلبہ کو ٹرانسپورٹ کرائے کی مد میں 50 فیصد رعایت دی جائے۔
5۔ تمام جامعات میں ہراسانی کمیٹیوں کا قیام اور اس میں طلبہ کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔
6۔ سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ سمیت ملک بھر سے جبری طور پر گمشدہ تمام طلبہ اور اساتذہ کو رہا کیا جائے۔ مزید برآں تعلیمی اداروں سے رینجرز اور ایف-سی کا انخلا یقینی بنایا جائے۔
7۔ تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت مرد اور عورت کی کیٹیگری کے علاوہ خواجہ سرا کیٹیگری بھی شامل کی جائے اور متجنس افراد ایکٹ 2018 پر عمل یقینی بنایا جائے۔
8.حکومت کی جانب سے اعلان کردہ جامعات کے قیام کا عمل تیز کیا جائے بالخصوص پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی کا قیام فوری عمل میں لایا جائے۔
9۔ تمام جامعات میں فیسوں میں حالیہ اضافہ واپس لیا جائے۔
10۔ ایچ ای سی کی بجٹ کٹوتیاں واپس لی جائیں اور کل جی ڈی پی کا 5 فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔
11۔ پچھلے سال سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے ساتھ گورنر پنجاب کی جانب سے سکالرشپس بحالی کا وعدہ پورا کیا جائے اور اسلام آباد میں سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کی جانب سے 265 سیٹوں کی بحالی کے لیے جاری دھرنے کا مطالبہ بھی تسلیم کیا جائے۔
12۔ مقامی میڈیکل گریجوایٹس کے لیے این ایل ای 2 اور فارن گریجوایٹس کے لیے این ایل ای 2 میں مینڈیٹری سٹیشن ختم کیے جائیں۔