تحریک عدم اعتماد زور پکڑتی ہے تو اس کے مطابق فیصلہ کرینگے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو فیصلہ مختلف ہوگا

تحریک عدم اعتماد زور پکڑتی ہے تو اس کے مطابق فیصلہ کرینگے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو فیصلہ مختلف ہوگا
ایم کیو ایم رہنما وسیم اختر نے کہا ہے کہ ہم اپنے پتے ہوشیاری سے کھیلیں گے۔ اگر تحریک عدم اعتماد زور پکڑتی ہے تو ہم اس کے مطابق اپنا فیصلہ کریں گے، اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارا فیصلہ مختلف ہوگا۔

نیا دور ٹی وی سے ملک میں جاری سیاسی ہلچل پر بات کرتے ہوئے وسیم اختر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جس طرح برتائو کر رہی ہے، اور اس کے علاوہ مونس الہیٰ نے بھی جو بیان دیا ہے، یہ تمام چیزیں ہمارے سیاسی نظام کا حصہ ہیں۔ اب پی ٹی آئی کو بھی اس سے واقف ہونا پڑے گا کہ سیاستدان ایک دوسرے کیساتھ ملاقاتیں کرتے اور ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔

وسیم اختر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے کیساتھ میل ملاقات کرنا آئینی حق ہے۔ پی ٹی آئی کو ایسی ملاقاتوں پر ناراضگی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ اگرچہ ہم حکومت کے اتحادی ہیں لیکن ایک آزاد جماعت کی حیثیت سے ہم کسی بھی دوسری پارٹی سے ملاقات کر سکتے ہیں۔

اس پر نادیہ نقی نے سوال پوچھا کہ کیا اپوزیشن قائدین کیساتھ ملاقات کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وسیم اختر نے کہا کہ ہم سے کسی نے ایسی بات نہیں کی لیکن میڈیا میں جو چیزیں چل رہی ہیں، میں نے اس تناظر میں یہ بات کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم تنہائی میں بیٹھ کر ہم ملکی سیاست نہیں کر سکتے۔ تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی دوسروں کیساتھ میل ملاقات کرنا سیکھنا پڑے گا۔ کل انھیں بھی ایسی ہی ملاقاتیں کرنا پڑ سکتی ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کیساتھ ملاقاتوں بارے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد پیپلز پارٹی پر دبائو بڑھانا ہے کیونکہ بلدیاتی قوانین بارے اس کیساتھ شدید قسم کے ایشوز پیدا ہو چکے ہیں۔ کیونکہ وہ ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنے سے مکمل انکار کر رہی ہے۔ ہمارے ایشوز صوبائی حکومت کیساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہماری ملاقاتیں اسی تناظر میں تھیں۔ اس کے علاوہ ہم اپنا مسئلہ لے کر صدر مملکت کے پاس بھی گئے تھے۔ یہ ہمارا ایک مشن تھا جس پر ہم نکلے تھے۔

حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں ہمارے ووٹ فیصلہ ساز ہیں۔ حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجود ہم اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں۔ ملک میں اس وقت جو منظر نامہ بنا ہوا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی میں بات چیت کر رہے ہیں اور اسی حساب سے ہم انشا اللہ آگے بڑھیں گے۔



وسیم اختر کا کہنا تھا کہ ماضی میں وزیراعظم عمران خان بھی بلدیاتی اداروں کو مضبوط کرنے کی بات کرتے تھے لیکن اب وہ بھی اپنے بیانات سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ وہ اپنے اراکین اسمبلی کو ہی فنڈز جاری کرتے ہیں اور لوکل باڈی سسٹم کو جس طرح سے مضبوط کرنا چاہیے تھا، ویسا نہیں کر رہے۔

ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری سیاسی تاریخ ہے کہ ہم نے ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کیساتھ بھی معاہدے کئے ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی نے بھی ان پر کبھی عمل نہیں کیا۔ اس کے بعد ہماری چوائس تحریک انصاف ہی بنتی تھی۔ ہم جموریت کے وسیع تر مفاد میں ہم نے اس کا ساتھ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش تھی کہ اس کیساتھ مل کر کراچی، حیدر آباد اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کی ترقی اور بہبود کیلئے کام کرینگے۔ ہم کسی کے کہنے پر تحریک اںصاف کا ساتھ نہیں دے رہے۔ ہم کل ہی اس سے الگ ہو جائیں لیکن پھر کیا ہوگا؟ کیا کسی کے پاس اور کوئی آپشن ہے۔ تین تین بار تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو آزمایا جا چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں ہمارے بہت سے ایشوز کو حل کیا جا رہا ہے جو ماضی کی حکومتوں میں کبھی حل نہیں ہوئے تھے۔