سپریم کورٹ: ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آزادانہ نقل وحرکت کیلئے دائر درخواست انتقال کے بعد مقرر

سپریم کورٹ: ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آزادانہ نقل وحرکت کیلئے دائر درخواست انتقال کے بعد مقرر
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آزادانہ نقل وحرکت کے لیے دائر درخواست انکے انتقال کے بعد مقرر کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ 24 فروری کو سماعت کرے گا۔

عدالت نے گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو ایٹمی سائنسدان سے وکلا کی ملاقات کرانے کی ہدایت کی تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی درخواست 2019 سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ محسن پاکستان دس اکتوبر 2021ء کو انتقال کر گئے تھے۔

تفصیل کے مطابق ایٹمی سائنسدان نے آخری درخواست پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں دو سال قبل یعنی سنہ 2019 میں دائر کی گئی تھی جس پر نہ تو کوئی فیصلہ ہوا اور نہ ہی ان کے وکلا کو سکیورٹی کے نام پر ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔

درخواست گزار ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکلا شیخ احسن الدین اور توفیق آصف کے مطابق جب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہوئی ہے اس وقت سے اب تک اس کی صرف پانچ سماعتیں ہوئی ہیں جبکہ پہلی سماعت درخواست دائر کرنے کے نو ماہ بعد ہوئی تھی۔

ایک سماعت کے دوران تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سپریم کورٹ لایا گیا لیکن متعلقہ حکام نے انھیں کمرہ عدالت میں لے کر جانے کے بجائے اُنھیں سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں بٹھا دیا گیا اور پھر وہیں سے ہی اُنھیں ان کے گھر منتقل کر دیا گیا۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اس درخواست کی سماعت کی تھی اور درخواست گزار کے وکلا نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان کے مؤکل کو اگر کمرہ عدالت میں نہیں بلایا جاسکتا تو بینچ کے سربراہ انھیں اپنے چیمبر میں ہی سن لیں، تاہم عدالت نے ان کی استدعا پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

عدالت نے بہرحال اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو ہدایت کی تھی کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ان کے گھر پر جا کر ملاقات کر کے آئیں اور اُن سے پوچھیں کہ انھیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔

عدالتی حکم پر اس وقت کے اٹارنی جنرل نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کی تھی جبکہ عدالت نے 24 جون سنہ 2020 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکلا کی اپنے مؤکل کے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت دی لیکن درخواست گزار کی ان کے وکلا سے ملاقاتیں یہ کہہ کر نہیں کروائی گئی کیونکہ اس عرصے کے دوران سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کا انتقال ہو گیا تھا اس سے ایسے حالات میں درخواست گزار کی ان کے وکلا سے ملاقات کروانا ممکن نہیں تھا۔

ڈاکٹر قدیر زندگی کے آخری ایام میں کافی رنجیدہ نظر آتے تھے، جس کا اظہار ان کے ایک خط میں بھی نظر آتا ہے جو انھوں نے چار اکتوبر کو سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو لکھا تھا۔

سید مراد علی شاہ نے ان کی صحت دریافت کی تھی اور نیک تنماؤں کے ساتھ گلدستہ بہیجا تھا، جس کے جواب میں ڈاکٹر قدیر نے انھیں جوابی خط تحریر کیا، جس میں انھوں نے مراد علی شاہ کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ وہ اب کافی بہتر ہیں۔

دو پیرا گراف کے اس خط کے دوسرے پیرا گراف میں وہ لکھتے ہیں کہ ’جب وزیراعظم، پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ میری وفات کی گڈ نیوز سننے کے منتظر ہیں میرے صوبے اور شہر کے وزیر اعلیٰ نے مجھے اس مشکل حالات میں یاد کیا ہے۔‘