کیا بی آر ٹی پشاور کو 'گولڈ سٹینڈرڈ' سے نوازنا مفادات کا ٹکراؤ ہے؟

کیا بی آر ٹی پشاور کو 'گولڈ سٹینڈرڈ' سے نوازنا مفادات کا ٹکراؤ ہے؟
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے پشاور کے بس سروس ‏( بی آر ٹی پشاور) کے حوالے سے ایک ٹوئیٹ کی گئی جس میں موقف اپنایا گیا کہ بی آر ٹی پشاور کو بین الاقوامی گولڈ سٹینڈرڈ سروس کا درجہ مل گیا اور اب تک دنیا بھر میں بی آر ٹی گولڈ سٹینڈرڈ سروس ایوارڈ صرف 6 ممالک کو حاصل ہو سکا ہے۔

https://twitter.com/PTIofficial/status/1494611368716214279

تعمیرات اور ڈویلپمنٹ پر نظر رکھنے والے کئی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ بی آر ٹی کے منصوبے پر مخصوص لاگت سے ڈبل خرچ ہونا، تعمیرات سمیت بسوں میں فنی خرابیاں اور دیگر کئی ایسے نقائص تھے جس پر گولڈ سٹینڈرڈ سے نوازنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹرسیف نے تصدیق کی کہ بی آر ٹی سروس نے دنیا بھر میں 100 میں سے 97 نمبر حاصل کیے۔ ایک بیان میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ بی آر ٹی پر الزام لگانے والےتھوڑی شرمندگی ضرور محسوس کریں کیونکہ بی آر ٹی پشاور کے لیے’گولڈ سٹینڈرڈ ریٹنگ‘ کا ایوارڈ صوبے کے لیے اعزاز ہے۔

انسٹیٹیوٹ فار ٹرانسپورٹیشن اینڈ ڈیویلپمنٹ پالیسی جس نے بی آر ٹی کو گولڈ سٹینڈرڈ سے نوازا ہے، انڈونیشیا کی ایک فرم ہے جو ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے اس کنسلٹنٹ ٹیم کا حصہ تھا جنھوں نے اس منصوبے کے شروع کے ڈیزائن پر کام کیا تھا اور آئی ٹی ڈی پی نامی فرم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر تصدیق کی ہے کہ وہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے اس کنسلٹنٹ ٹیم کا حصہ تھا جنھوں نے بی آر ٹی کے ڈیزائینگ پر کام کیا تھا۔ ادارے کے مطابق اس بار دو پراجیکٹس کو ایوارڈ سے نوازا گیا جن میں پشاور بی آر ٹی بھی شامل ہے اور ان کو Sustainable Award 2022 سے نوازا گیا۔

کیا آئی ٹی ڈی پی کی جانب سے گولڈ اسٹینڈرڈ دینا مفادات کا ٹھکراؤ نہیں ہے؟

جنگ گروپ سے وابستہ سینئیر صحافی مہتاب حیدر بی آر ٹی کو ایک ایسے فرم سے ایوارڈ دینا مفادات کا ٹکراؤ سمجھتے ہیں جو بی آر ٹی کے تعمیرات کا حصہ تھے۔

مہتاب حیدر نےنیا دور میڈیا کو بتایا کہ دنیا اور پاکستان میں قواعد یہ ہے کہ جب ایک ادارہ کوئی پراجیکٹ مکمل کرتا ہے تو پھر تیسرا فریق ان کی کارگردگی کا جائزہ لیتے ہیں مگر یہ کھل کر مفادات کا ٹھکراؤ ہے کہ ایک ادارے نے ایک پراجیکٹ بنانے میں حصہ لیا اور پھر اس کو سرٹیفکیٹ سے بھی نوازا کہ ہاں یہ گولڈ سٹینڈرڈ کا حقدار ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اب یہ نہیں معلوم کہ اس کنسلٹنٹ فرم نے دنیا کے کتنے پراجیکٹ کو اکھٹا کیا اور پھر کس پیمانے کو استعمال کرتے ہوئے بی آر ٹی کے منصوبے کو گولڈ سٹیٹس سے نوازا، اس کی تفصیلات اگر سامنے آجائیں تو پھر دیکھا جائے گا کہ واقعی وہ قواعد و ضوابط شفاف تھے کہ نہیں؟ لیکن میں پھر بھی یہی کہونگا کہ یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔

ٹرانس پشاور کے ترجمان محمد عمیر کہتے ہیں کہ بی آر ٹی کو آئی ٹی ڈی پی کی جانب سے گولڈ سٹینڈرڈ دینا کسی بھی طور سے مفادات کا ٹھکراؤ نہیں۔ ترجمان ٹرانس کے مطابق اس فرم کی خدمات کبھی بھی ہم نے حاصل نہیں کیں اور نہ ہم نے ان کے ساتھ کام کیا، لیکن یہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ایک بین الاقوامی فرم ہے جنھوں نے ہمارے منصوبے کا کئی حوالوں پر سروے کیا اور اس سروے کے ممبران نے کئی دن بی آر ٹی میں خود سفر کیا اور پھر جاکر ہمیں اس ایوارڈ سے نوازا، اس لئے اس میں مفادات کا کوئی ٹھکراؤ شامل نہیں۔

پشاور میں مقیم صحافی لحاظ علی کہتے ہیں کہ جس کنسلٹنٹ فرم نے بی آر ٹی کو بہترین کارکردگی پر ایوارڈ سے نوازا، سال 2017 میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بی آر ٹی میں اس کی خدمات حاصل کیں۔ ان کے مطابق آئی ٹی ڈی پی نامی فرم نے ایک ایسے منصوبے پر ایوارڈ جاری کیا جو ابھی تک مکمل بھی نہیں ہوا۔ لحاظ علی کے مطابق اس منصوبے پر مخصوص لاگت سے تقریبا دوگنا خرچ ہونا، بسوں میں فنی خرابیاں پیدا ہونا سمیت دیگر ایسے کئی نقائص سامنے آئے جس کے بعد اس منصوبے کی شفافیت پر سوالات کھڑے ہوئے۔ ان کے مطابق اگر بی آر ٹی پر کوئی آزاد اور ماہر ادارہ سروے جاری کرتا اور ان کو گولڈ سٹیٹس سے نوازتا تو پھر بھی سمجھ آتی تھی لیکن یہ کھل کر مفادات کا ٹھکراؤ ہے ایک ادارے نے تعمیرات میں حصہ لیا اور پھر خود کو سرٹیفکیٹ سے بھی نوازا ۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔